Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 6, 2020

اتر پردیش میں گرفتاریوں اور لوگوں کو ہراساں کرنے کا نیا سلسلہ بدنیتی اور انتقام پر مبنی

اتر پردیش میں گرفتاریوں اور لوگوں کو ہراساں کرنے کا نیا سلسلہ بدنیتی اور انتقام پر مبنی 
نئی دہلی ۔ 05؍فروری 2020 (پریس ریلیز)/صداٸے وقت۔
==============================
اترپردیش پولیس کے ذریعہ بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو پاپولر فرنٹ کا کارکن بتاکر گرفتار کرنا ایک منصوبہ بند انتقامی کاروائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دسمبر 2019 میں پہلی مرتبہ گرفتار کئے گئے ہزاروں مظاہرین میں سے صرف25 لوگوں کو ہی پاپولر فرنٹ کا کارکن بتایا گیا تھا۔ اب پولیس نے یوپی کے مختلف اضلاع میں لوگوں کو پھر سے پریشان کرنا شروع کر دیا ہے۔
حکام کا الزام ہے کہ ریاست میں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران ہوئے پرتشدد واقعات کے پیچھے پاپولر فرنٹ کا ہاتھ ہے۔ ملک بھرمیں کئی ہفتوں سے جگہ جگہ سی اے اے کی مخالفت میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور یہ سبھی مظاہرے پُرامن طریقے سے چل رہے ہیں۔ لیکن صرف یوپی جیسی بی جے پی کی حکومت والی ریاست میں ہی حکومت اور پولیس نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے مظاہروں میں تشدد کا رویہ اپنایا اور مظاہرین پر گولیاں چلائیں، بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا، مسلمانوں کو مارا پیٹا اور ان کی املاک کو بھاری نقصان پہنچایا۔ ساتھ ہی انہوں نے اس کا پورا الزام بھی مظاہرین کے اوپر ہی ڈال دیا۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے کھلے عام یہ کہا تھا کہ مظاہرین سے بدلہ لیا جائے گا اور اب پولیس ان کے اعلان کے مطابق لوگوں سے بدلہ لے رہی ہے۔ اکیلے اترپردیش میں پولیس کی گولی سے 23 مظاہرین کی موت ہو چکی ہے۔
جہاں کہیں پاپولر فرنٹ موجود ہے، وہ سی اے اے مخالف مظاہروں میں حصہ لیتی رہی ہے۔ اترپردیش میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی کوئی ریاستی کمیٹی نہیں ہے۔ وہاں محض 8 ارکان پر مشتمل ایک ایڈہاک (عارضی) کمیٹی ہے، جن میں سے تین ارکان وسیم احمد (کنوینر)، ندیم اور اشفاق (ارکان) کو پہلے راؤنڈ میں گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا ہے، ان کے ساتھ دیگر 22 افراد کو پاپولر فرنٹ کا کا رکن بتاکر گرفتار کیا گیا تھا۔ریاست میں پاپولر فرنٹ کے ہزاروں حامیان ہیں، لیکن تنظیم کے ممبران بہت کم ہیں۔ شہری سماج کی جماعتوں کی متعدد فیکٹ فائنڈنگ رپورٹیں منظر عام پر آ رہی ہیں، جن میں مظاہروں کو لے کر ہوئے تشدد میں پاپولر فرنٹ کے شامل ہونے کی کوئی بات نہیں پائی گئی ہے۔ اسی طرح پولیس بھی عدالت میں اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں دے پائی۔
ملک کے قانون کے مطابق چلنے والی تنظیم ہونے کی حیثیت سے، پاپولر فرنٹ مکمل طور سے پرامن وجمہوری طریقے سے کام کرتی ہے۔ آج تک اسے کبھی کسی تشددمیں شامل نہیں پایا گیا۔ لہٰذا اس کے تشدد میں شامل ہونے کے ثبوت ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔
پاپولر فرنٹ کے خلاف پولیس اب تک کوئی ثبوت پیش نہیں کر پائی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ابھی بھی ”تشدد“ میں شامل ہونے کے نام پر نوجوانوں کو پاپولر فرنٹ کا کارکن بتاکر گرفتار کر رہے ہیں۔ میڈیا کی حالیہ خبروں کے مطابق، گذشتہ کچھ دنوں میں 108 ”پاپولر فرنٹ کے کارکنان“ کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دھر پکڑ کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔
ایسا لگ رہا ہے جیسے پاپولر فرنٹ کی ایڈہاک کمیٹی کے رکن مفتی شہزاد کے ذریعہ اترپردیش پولیس کے مظالم اور مسلمانوں کی غیرقانونی گرفتاریوں کی سپریم کورٹ /ہائی کورٹ کے موجودہ یا رٹایرڈ جج کے ذریعہ عدالتی تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست (پی آئی ایل) کی وجہ سے غصے میں آکر پولیس نے حالیہ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ چیف جسٹس کی صدارت والی خصوصی بنچ نے 27 جنوری کو درخواست پر سماعت کی اور حکومت کو اگلی تاریخ 17 فروری کو جوابی حلفنامہ داخل کرنے کے لئے کہا ہے۔
درخواست اور عدالت کے سوال کے باوجود، پولیس مسلسل مسلمانوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ مردوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس مسلم خواتین اور بزرگوں کے ساتھ بھی مار پیٹ کر رہی ہے اور انہیں دھمکا رہی ہے۔ مفتی شہزاد کے اہل خانہ اور شاملی، کیرانہ، میرٹھ وغیرہ میں پولیس کے مظالم کے خلاف شکایت درج کرانے والے دیگر متاثرین کو بھی پولیس کے ذریعہ دھمکایا اور مارا پیٹا گیا ہے۔
پاپولر فرنٹ ہائی کورٹ اور نچلی عدالتوں میں شروع کی گئی قانونی لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ تنظیم عدالت میں یوپی پولیس کے مظالم کے خلاف لڑائی جاری رکھے گی اور پولیس کی زیادتیوں اور من مانی گرفتاری کے شکار لوگوں کو قانونی مدد فراہم کرتی رہے گی۔
پاپولر فرنٹ یوگی حکومت کی غیرانسانی اور بزدلی بھری حرکتوں اور پولیس کے ذریعہ تنظیم پر جھوٹے الزامات لگائے جانے اور حالیہ گرفتاریوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے، اور تمام شہریوں اور جماعتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ یوگی کے جنگل راج کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔