Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 2, 2020

دیش کے ”غداروں “ پر گولیوں کی بوچھار


از /معصوم مرادآبادی/صداٸے وقت۔
=============================
معاف کیجئے! یہ کسی فلم کی شوٹنگ کا منظر نہیں ہے بلکہ یہ دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اہم شاہراہ کامنظر ہے۔ جامعہ کے طلباء ایک لانگ مارچ نکال رہے ہیں۔ اس مارچ کو گاندھی سمادھی پر جاکر ختم ہونا ہے۔ جامعہ کی سڑک پر پولیس کا بھاری بندوبست ہے۔ اچانک ایک رام بھکت ہاتھ میں پستول لے کر نمودار ہوتا ہے اور مارچ نکالنے والے نوجوانوں پر فائرنگ شروع کردیتا ہے۔ گولی جامعہ کے طالب علم شاداب کے ہاتھ میں لگتی ہے۔ وہاں موجوددہلی پولیس کے300 جوان بغیر کسی حرکت کے خاموش کھڑے رہتے ہیں۔ پولیس نہ تو حملہ آور کو روکتی ہے اور نہ ہی زخمی طالب علم کی مدد کرنے کے لئے آگے بڑھتی ہے ۔حالانکہ یہ وہی دہلی پولیس ہے جس نے گذشتہ ماہ جامعہ کے طلبا پر ظلم وستم کے پہاڑتوڑے تھے اور لائبریری میں داخل ہوکر تباہی و بربادی کی داستان رقم کی تھی۔ آج یہ پولیس اس لئے خاموش ہے کہ حملہ کرنے والا دہشت گرد رام بھکت ہے اور اس کی زبا ن پر ’ دہلی پولیس زندہ باد‘ کا نعرہ ہے۔وہ یہاں شاہین باغ کو ختم کرنے اور لوگوں کو ’آزادی‘ دینے آیا ہے۔دہلی پولیس نے دیش کے ’غدار‘ شرجیل امام کو گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ وہ اپنی اس کامیابی پر اتنی خوش ہے کہ اب کسی کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی ۔ حالانکہ اصل دہشت گرد 30جنوری کی دوپہر کو رام بھکت گوپال کی صورت میں نمودار ہوچکاہے، جسے میڈیا نابالغ قرار دینے میں مصروف ہو گیا ہے اور ہندو مہا سبھا نے اسے انعام سے نوازنے اور اس کا مقدمہ لڑنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے۔ دہلی پولیس نے رام بھکت گوپال کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ تودرج کرلیا ہے ،لیکن اسے نابالغ قرار دینے کا جوپروپیگنڈ ہ کیا جارہاہے ، اس میں اس کے بچاؤ کی کئی صورتیں پوشیدہ ہیں ۔ پولیس اس کا دماغی توازن خراب ہونے کا بہانہ بھی تراش سکتی ہے‘ جس کی بنیاد پر اسے کلین چٹ بھی مل سکتی ہے، جیسا کہ اکثر اس قسم کے معاملوں میں ہوتاہے۔یعنی جہاں حملہ آور’ دیش بھکت ‘ہوتے ہیں۔وہاں ان کے دماغ میں خلل ہونے کی بات کہہ کر ان کا معاملہ رفع دفع کردیا جاتا ہے۔

رام بھکت گوپال نے جامعہ کے طلبا کو جس وقت نشانہ بنایا ،وہ راج گھاٹ تک جانے والے ایک لانگ مارچ میں شریک تھے۔ یہ مارچ دراصل بابائے قوم مہاتما گاندھی کے72ویں یوم شہادت پر نکالا جارہا تھا۔ مہاتما گاندھی کو آج ہی کے دن اسی دہلی میں ناتھورام گوڈسے نے گولیوں سے بھونا تھا۔ ناتھورام گوڈسے اور رام بھکت کے نظریات میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس کے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعہ جو اطلاعات ملی ہیں، اس میں وہ شدت پسند ہندو تنظیموں سے متاثر بتایا جاتاہے ۔ بجرنگ دل جیسی جارحانہ تنظیم نے اس کی ذہن سازی کی ہے۔ وہ شاہین باغ اور جامعہ میں ہورہے احتجاج سے پریشان تھا۔ یہ پریشانی اس لئے زیادہ تھی کہ حکمراں جماعت کے لوگوں نے شاہین باغ کو وطن دشمنوں اور ملک توڑنے والوں کا اڈہ قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ ہوں یا وزیر قانون روی شنکر پرشادیا پھر وزیر خزانہ انوراگ ٹھاکر، ان سب نے مل کر دہلی کے اسمبلی انتخابات کے لئے جاری اپنی مہم میں شاہین باغ کو ہی نشانہ بنایا ہے۔ وطن سے غداری اور ملک دشمنی کا ایسا کون سا الزام ہے جو شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھی ہوئی خواتین پر چسپاں نہ کیاگیا ہو۔ دہلی بی جے پی کے سکریٹری نے تو شاہین باغ کا رشتہ داعش جیسی خطرناک تنظیم سے جوڑنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی ۔ دوسری طرف بی جے پی ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما نے بے شرمی اور بے غیرتی کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ’’ شاہین باغ میں بیٹھے ہوئے لوگ آپ کے گھروں میں گھس کر آپ کی بہن بیٹیوں کو ’ریپ‘ کریں گے۔‘‘حالانکہ یہ سبھی کو معلوم ہے کہ شاہین باغ میں خواتین ہی دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں، لیکن بیمار ذہنیت کے حامل بی جے پی لیڈروں کو کون سمجھائے کہ مسلم دشمنی نے ان کے ذہنوں کو اتنا ماؤوف کردیا ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔جامعہ میں فائرنگ کی گھناؤنی واردات کے بعد امید بندھی تھی کہ اب شاید بی جے پی کے لوگ اپنی زبان کو لگام دیں گے،لیکن جس روز یہ واقعہ پیش آیا اس روز بھی وزیر داخلہ نے چھتر پور حلقہ کی سنجے کالونی میں بار بار شاہین باغ کا نام لیا اور عوام سے شاہین باغ کے خلاف نعرے لگوائے۔ انھوں نے کہا کہ یہ الیکشن نریندر مودی اور شاہین باغ کے درمیان ہے۔ 
 ہم آپ کو یاددلادیں کہ اسی طرح کے نعرے گذشتہ ہفتہ وزیرمملکت برائے امور خزانہ انوراگ ٹھاکر نے لگوائے تھے۔ انھوں نے اپنی انتخابی ریلی میں موجود لوگوں سے کہا تھا کہ وہ ایک نعرہ لگائیں گے ، جس کا جواب آپ کو دینا ہے۔ انھوں نے کہا’’ دیش کے غداروں کو‘‘ تو اس نعرے کے جواب میں لوگوں نے کہا ’’ گولی مارو، سالوں کو‘‘۔ یہ نعرہ دہلی میں اس وقت سے گونج رہا ہے جب سے یہاں اسمبلی انتخابات کی مہم شروع ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دہلی اسمبلی کے انتخابات میں عوام کا غالب رحجان عام آدمی پارٹی اور وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کی طرف ہے ، جنھوں نے پچھلے پانچ سال کے اقتدار میں عوامی بہبود کے بے شمار کام کئے ہیں ۔ بجلی اور پانی کو عا م لوگوں کے لئے لگ بھگ مفت کردیا ہے ۔ سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی کایا پلٹ ہوگئی ہے۔ایسے میں دہلی کے عام لوگوں کے ذہنوں پر کجریوال اور ان کی پارٹی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور وہ کسی دوسرے کا نام سننے کو تیار نہیں ہیں۔بی جے پی دہلی کے عوام کو کجریوال سے بدظن کرنے کی ہزارکو ششوں میں ناکامی کے بعد اپنے آزمودہ ایجنڈے پر واپس آگئی ہے ۔ اس نے ترقی اور خوش حالی کے موضوع کو پس پشت ڈال کر دہلی کی فضا میں فرقہ واریت کا زہر گھولنا شروع کردیا۔اس مقصد کے تحت بی جے پی نے بہت سوچ سمجھ کر شاہین باغ کو نشانے پر لیا اور ایک تیر سے دوشکار کھیلنے کی کوشش کی ۔ اول یہ کہ شہریت ترمیمی قانون ‘مجوزہ این آرسی اوراین آر پی کے خلاف ملک گیر سطح پر جو زور دار مہم چل رہی ہے‘ اس پر وطن دشمنی کا لیبل لگاکر بدنام کردیا جائے اور دوسرے اس ہڑبونگ میں دہلی کا ماحول پراگندہ کرکے عوام کے ذہنوں سے کجریوال کا جادو اتارکر فرقہ واریت کا زہر بھردیا جائے۔اس مقصد کے لئے شرجیل امام نام کے ایک نوجوان کو ملک دشمنی کی سب سے بڑی علامت کے طورپر پیش کیا گیا۔اس پر الزام ہے کہ اس نے شاہین باغ میں تقریر کرتے ہوئے آسام کا رابطہ پورے ملک سے کاٹنے کی بات کہی تھی اور وہی دراصل شاہین باغ کے پروٹسٹ کا بانی بھی ہے۔ گودی میڈیا نے شرجیل امام کو ملک کا سب سے خطرناک دشمن قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جبکہ شرجیل کی جس تقریر کی بنیاد پر غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے ، وہ اس نے شاہین باغ میں نہیں بلکہ علی گڑھ میں کی تھی ‘نیز یہ کہ اس کا شاہین باغ پروٹسٹ کو منظم کرنے میں کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ یہ بات شاہین باغ کے مظاہرین نے میڈیا کو بتائی ہے۔
شرجیل امام کو بہار میں واقع اس کے گھرسے گرفتار کرلیا گیا ہے اور وہ فی الحال دہلی پولیس کی حراست میں ہے۔ شرجیل کے خلاف بی جے پی کے اقتدار والی کئی  ریاستوں میں غداری کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ہمیں نہیں معلوم کہ شرجیل امام نے جوکچھ اپنی تقریر میں کہا وہ کس حدتک وطن دشمنی کے دائرے میں آتا ہے ، کیونکہ اس کا فیصلہ عدالت میں ثبوتوں کی بنیاد پر ہوگا۔ویسے حقیقت یہ ہے کہ جب سے بی جے پی نے ملک کا اقتدار سنبھا لا ہے‘ تب سے اس ملک میں غداری کے مقدمات کی قطار لگ گئی ہے۔ جو بھی بی جے پی کی پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے یا وزیر اعظم پر انگلی اٹھاتا ہے ، اسے ملک دشمن اور غدار وطن قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں سامنے آیا ہے۔ بیدر میں واقع شاہین اسکول اور اس کے کمسن طلباء پر وطن دشمنی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ ان طلبا ء کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف ایک ڈرامہ میں حصہ لیا تھا۔ بی جے پی کے ایک کارکن نے اس ڈرامے میں وزیر اعظم کی توہین کرنے کی شکایت درج کرائی اور پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے اسکول انتظامیہ اور چوتھی کلاس کے بچوں پر غداری کا مقدمہ قائم کرلیا۔ اب مقامی پولیس ان کمسن بچوں سے اسی طرح پوچھ تاچھ کررہی ہے ، جس طرح عادی مجرموں سے کی جاتی ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ جامعہ پر دہشت گردانہ حملہ کرنے والے گوپال پر دہشت گردی کا مقدمہ چلایا جائے گا کیونکہ وہ رام بھکت ہے اور اس نے عین اس دن جامعہ کے طالب علم پر گولی چلائی جس دن ناتھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا۔ایسا ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ اب اس ملک میں گاندھی کی بجائے گوڈ سے کی پوجا ہورہی ہے اور وہی سب سے بڑا دیش بھکت ہے۔