Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 20, 2020

نٸی کانگریس مت بنایٸے۔۔۔!!!!!!!

از/سمیع اللہ خان/ صداٸے وقت 
===============================
گزشتہ کئی دنوں سے دریدہ دہن تسلیمہ نسرین اسلامی شعائر کے خلاف زہرافشانی کررہی ہے
 برقعہ اور باحجاب مسلمان بچیوں کے خلاف زہر اگل رہی ہے، ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے 
 تسلیمہ نسرین، طارق فتح، سلمان رشدی اور امام توحیدی جیسے بے شمار اسلام دشمن اسکالرز جنہیں خاص اسی کام کے لیے اسپانسر کیاگیاہے وہ عرصے سے اسلام، قرآن، رسولﷺ اور مسلمانوں کے خلاف گندے اور غلیظ پروپیگنڈے کرتے ہیں 
واضح رہے کہ یہ زہریلے لوگ بنیادی اسلامی فکر اور قرآنی تعلیمات سے کسی علمی یا معلوماتی بنیاد پر اختلاف رائے نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ نفرت اور یہودیت انڈیلتے ہیں، بلا کسی منطقی دلیل کے یہ افراد اسلامی تعلیمات پر مغلظات بکتے ہیں، یہاں تک کہ اللّٰہ اور رسولﷺ کے خلاف گندی گندی گستاخیاں کرتے پھرتے ہیں

 کل بھی تسلیمہ نسرین نے مغلظات بکتے ہوئے برقعے اور باحجاب خواتین کو نشانہ بنایا 
جس میں خاص بات یہ رہی کہ " شھلا رشید " نامی معروف خاتون نے حجاب کے خلاف تسلیمہ نسرین کی بکواسی غلاظت پر اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے پسندیدگی کا اظہار کیا

مجھے اس پر بالکل حیرت نہیں ہے، کہ شھلا رشید نے صریح اسلام دشمن بکواس کو پسند کیوں کیا؟ مجھے بالکل تعجب نہیں ہوا ہے اسی لیے میں شھلا رشید کی اس حرکت پر صرف اردو میں اپنی قوم کے درمیان یہ بات کہہ رہا ہوں تاکہ وہ ان لوگوں کے سکے کے دوسرے رخ سے بھی واقف ہوجائیں، میں تو عرصے سے اس قسم کے مشہور کمیونسٹوں کے متعلق واقف ہوں 
 البته آج شھلا رشید کے دل کی آواز نکل کر باہر آگئی، اور وہ علانیہ تسلیمہ نسرین کی مغلظات پر Like کررہی ہے، تو ضروری معلوم ہوا کہ اسے اُن حضرات تک بھی پہنچا دوں جو اس قسم کے Leftists لال سلام والے کمیونسٹوں کے دامِ محبت میں اسیر ہوچکےہیں، 

 اس وقت ہندوستان میں جس تیز رفتاری کے ساتھ مسلمانوں کے اندر leftist لیڈرشپ اپنی جگہ بنا رہی ہے وہ بہت ہی لمحہ فکریہ ہے 
 اس وقت ملک بھر کی عوامی تحریک میں مجمع مسلمانوں کا ہے، اور مرکزي Leading Role پر کمیونسٹ حضرات براجمان ہیں، انصاف پسند ہندو اور دلت پراثر پوزیشن میں نہیں ہیں، اور مسلمان صرف بھیڑ بنا ہوا ہے، مسلمان کمیونٹی کو اس تحریک سے کچھ Productive حصولیابی ملے اس کے آثار بچانا چاہییں 
 بعض جگہوں پر تو خود میں نے یہ تک دیکھا کہ، مسلمانوں کے موبائل اور ہاتھوں میں، کنہیا کمار، جگنیش میوانی، آئشی گھوش اور سوارا بھاسکر وغیرہ کی تصویریں وارفتگی کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں، استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کی نظروں میں یہ لوگ رول ماڈل ہیں_

 جبکہ یہ لوگ جو آج مسلمانوں کی عوامی  بھیڑ کو اپنی لیڈرشپ ڈیولپ کرنے کے لیے استعمال کررہےہیں ان میں ایسے بھی ہیں جن کی فکری اور نظریاتی ہی نہیں بلکہ استعماری تاریخ اسلام دشمنی میں سَنگھ واد سے بھی زیادہ لت پت ہے 

ہوسکتا ہےکہ مسلمانوں کا وہ طبقہ جو اپنے حق میں غیرمسلموں کی زبانی محض السلام اور سر پر ٹوپی رومال دیکھ کر مرعوب ہونے کا عادی ہے انہیں میری بات سے ناراضی ہو، میری گزارش ہےکہ میری بات نوٹ کرلیجئے کہ: 
جس دن کچھ لوگ، جو آج آپکی بھیڑ کے کاندھوں پر سرگرم ہیں وہ ہندوستان میں طاقتور ہوں گے اس دن ان کی زبانیں طارق فتح، تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کو بھی پچھاڑ دیں گی
 میں ذاتی طورپر اس بات میں یقین رکھتا ہوں کہ ہندوستان ایک تکثیریت کا حامل ملک ہے، اور اس ملک میں تکثیریت کی رعایت کے ساتھ ہم سماجی و سیاسی طورپر کامیاب ہوسکتےہیں، یکجہتی بھائی چارہ اور بین المذاہب محبتیں یہاں کی خوبصورتی ہیں، ان چیزوں کی رعایت کرتے ہوئے چلنا اس ملک کا فطری تقاضا ہے جس کو ہم پوری طرح برت رہےہیں، میں نے سنگھیوں کے خلاف صف آرا، لال سلام والے ان تمام کمیونسٹ حضرات کی تائید میں ہمیشہ لکھا ہے 
اور ابھی بھی میرا یہی موقف ہیکہ موجودہ عوامی تحریک کا رزلٹ حاصل کرنے کے لیے Democratic طریقوں سے اگلے مراحل پر آنا ہوگا، ہر طبقے کے انصاف پسند غیر مسلم کو ساتھ لے کر مذاکرات کی ٹیبل پر آنا ہوگا، سیاسی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ بیٹھنا اور معاہدات کرنا ضروری ہے، اس اپوزیشن میں ہندو ہوں دلت ہوں، سکھ ہوں اور کمیونسٹ بھی ہوں 

*لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ موجودہ صورتحال آئندہ کے سو سالوں کی تاریخ ہے  یہ وقت مطلق کچھ لوگوں کی بھیڑ بن کر نئی کانگریس جنم دینے کا نہیں ہے، بلکہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا ہے تاکہ ہم برابری کی سطح سے مذاکرات و معاملات طے کرکے اپنی حصے داری واضح کریں، اگر ہم اسی طرح رہیں گے تو آئندہ ستر سالوں کے لیے اپنے ہی ہاتھوں سے ایک اور کانگریس کو جنم دیں گے، جن کے بنیادی خمیر میں ہم سے ہمدرد محبت کا عنصر نہیں ہے_*
 
 اس تحریک کے ابتدائی دنوں میں ہی تاریخ کی روشنی میں وہ صورتحال واضح ہورہی تھی جوکہ آزادی کی جدوجہد میں کانگریس کو ہم پر مسلط کرنے کے اسباب میں سے تھی اسی لیے  راقم سطور نے ابتداء میں بھی اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کی تھی،

اس تحریک سے اپنی قوم کے لیے کچھ حاصل کرنا ہے تو نئے نوجوان، مخلص، مدبر اور بے لوث سینکڑوں زمینی کام کرنے والے اور فکری و قلمی حق ادا کرنے والے افراد کی ضرورت ہے، جوکہ ہماری قوم میں اس وقت کثرت سے نظر آرہے ہیں، لیکن اس کے لیے بھی قدیم افراد کا تعاون ضروری ہے یکطرفہ امکان کم ہے 
اور ان قدیم حضرات کے لیے اعتراف حق اور رجال سازی میں، ان کے ساتھ مریدی، جی حضوری، چاپلوسی، موروثیت، حلقہ وادیت، فرقہ واریت اور اپنی اپنی تنظیمی سیاست مانع ہے_

ایسی پُرپیچ صورتحال میں قومی حصولیابی کو ممکن بنانا اور اگلی کانگریس سے بچانا دقت نظر اقدامات کا طالب ہے_

*سمیع اللّٰہ خان*
۱۸ فروری، بروزمنگل ۲۰۲۰ 
ksamikhann@gmail.com