Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 27, 2020

اتر پردیش مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا معاملہ: نمیش کمیشن کی سفارشات پرعمل آوری کیوں نہیں؟

جسٹس آر ڈی نمیش کمیشن نے تقریباً 4سال تک دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کے معاملوں کی مختلف پہلوؤں سے جانچ کی ۔کمیشن نے جانچ کے دوران مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے طریقہ کار اور پولیس کی تھیوری پر خاص طور سے اپنی توجہ مر کوز کی ۔

الہ آباد:اتر پردیش /تحریر مشتاق عامر /نیوز 18/صداٸے وقت۔27 فروری 2020.
==============================
23نو مبر 2007 میں یو پی کے بارہ بنکی اور فیض آباد شہر کی کچہری میں سلسلہ وار بم دھماکوں نے پورے ملک کو ہلا کر رہ رکھ دیا تھا ۔عدالت احاطوں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری پولیس نے مسلم تنظیموں پر ڈالی تھی ۔22 دسمبر 2007 میں ان حملوں کے الزام میں ضلع جونپور کے قصبے مڑھیاہوں سے نوجوان طالب علم خالد مجاہد ،اعظم گڑھ سے بی یو ایم ایس کے طالب علم طارق قاسمی اور دیو بند سے کشمیری طالب علم سجاد الرحمان کو پولیس نے گرفتار کیا گیا تھا۔پولیس نے خالد مجاہد کو اس کے آبائی گاؤں مڑھیا ہوں سے گرفتار کیا تھا ۔لیکن پولیس ریکارڈ میں خا لد مجاہد کی گرفتاری مڑھیا ہوں سے نہ دکھا کر بارہ بنکی سے دکھائی گئی تھی۔ ساتھ ہی اس کے قبضے سے ہتھیاروں کی بر آمدگی کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا۔اسی طرح سے طارق قاسمی کو اعظم گڑھ کے رانی کی سراٸے بازار کے قریب سے اٹھایا گیا تھا جبکہ ان کی گرفتاری بھی ١٢ دن بعد بارہ بنکی سے دیکھاٸی گٸی تھی۔اور اس وقت کچھ احتجاجی مظاہرے بھی ہوٸے تھے جس کا ذکر جسٹس نیمیش نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔
خالد مجاہد ،طارق قاسمی اور سجاد الرحمان کی گرفتاری کے خلاف یو پی میں مختلف سماجی اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے سخت احتجاج کیا تھا ۔عوامی احتجاج اور سخت سیاسی دباؤ کو دیکھتے ہوئے اس وقت کی مایا وتی حکومت نے معاملے کی جانچ کے لئے ڈسٹرکٹ کورٹ کے سابق جج جسٹس آر ڈی نمیش پر مشتمل ایک رکنی جانچ کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا ۔ اس کمیشن کا کام تھا کہ خالد مجاہد اور دوسرے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کی جانچ کرنا اور اس کے متعلق اپنی سفارشات پیش کرنا تھا ۔ جانچ کمیشن کے قیام کے لئے 14 مارچ 2008 کو ما یا وتی حکومت نے نمیش کمیشن کی تشکیل کے لئے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ۔جسٹس آر ڈی نمیش کمیشن نے تقریباً 4سال تک دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کے معاملوں کی مختلف پہلوؤں سے جانچ کی ۔کمیشن نے جانچ کے دوران مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے طریقہ کار اور پولیس کی تھیوری پر خاص طور سے اپنی توجہ مر کوز کی ۔
کمیشن نے جانچ کے دوران مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے طریقہ کار اور پولیس کی تھیوری پر خاص طور سے اپنی توجہ مر کوز کی ۔
اس معاملے میں کمیشن نے پولیس کے طور طریقے پر اپنی اہم معلومات درج کیں ۔کمیشن نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والے مسلم نوجوانوں سے متعلق سینکڑوں افراد کی گواہی بھی قلم بند کی۔ان گواہوں میں پولیس کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے ۔جسٹس نمیش کمیشن نے 31اگست 2012 کو130 صفحات پر مشتمل اپنی جانچ رپورٹ حکومت کو سونپ دی ۔لیکن اس وقت تک ریاست میں سماج وادی پارٹی کی حکومت بن چکی تھی ۔ چوں کی نمیش کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ ما یا وتی حکومت نے کیا تھا ۔اس لئے سماج وادی حکومت نے نمیش کمیشن کی رپورٹ اور ان کی سفارشات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ، بلکہ حکومت نے اس پر خا موشی اختیار کرنا ہی بہتر سمجھا ۔لیکن سماجی تنظیموں کی طرف سے نمیش کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ میں تیزی آ تی گئی ۔ اسی در میان ریاست کے معروف سماجی کارکن جا وید محمد نے الہ آباد ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کی ۔اس عرضی میں جاوید محمد نے عدالت سے نمیش کمیشن کو منظر عام پر لانے کی درخواست کی ۔جس دن الہ آباد ہائی کورٹ میں مفاد عامہ عرضی داخل کی گئی اسی کے دوسرے دن ریاستی حکومت نے اسمبلی میں نمیش کمیشن کی رپورٹ کو پیش کردیا ۔
لیکن حکومت نے نہ تو اس کی رپورٹ منظر عام پر آنے دی اور نہ ہی اس نے نمیش کمیشن سفارشات پر کوئی عمل در آمد کیا۔اس کیس میں ایک نیا موڑ تب آیا جب18 مئی 2013کو خالد مجاہد کی لکھنو جیل سے فیض آباد عدالت میں پیشی کے دوران پولیس حراست میں پر اسرار طریقے سے موت ہو گئی ۔خالد مجاہد پیشی سے پہلے حکومت نے اس پر کیس واپس لینے کا اعلان کر دیا تھا ۔پولیس حراست میں خالد مجاہد کی موت نے اس معاملے کو اور بھی پیچیدہ کر دیا ۔ریاست کی سماج وادی پارٹی حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر خالد مجاہد کی پولیس حراست موت کی جانچ کے لئے ایس آئی ٹی بنانے کا اعلان کیا تھا ۔لیکن ایس آئی ٹی کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آئی ہے ۔دہشت گرادنہ حملے معاملے میں دوسرے ملزمان طارق قاسمی اور محمد اختر کو دسمبر 2019میں فیض آباد ضلع عدالت میں عمر قید کی سز ا سنائی ہے ۔جبکہ اس معاملے میں ایک اور ملزم سجاد الرحمان کو ثبوت کی غیر موجودگی کے سبب رہا کردیاگیا۔
جسٹس نمیش کمیشن نے اپنی رپورٹ میں خالد مجاہد اور طارق قاسمی کی گرفتاری پر سنگین سوال اٹھائے تھے ۔نمیش کمیشن رپورٹ میں پولیس حراست کے دوران مسلم نوجوانوں پر کئے جانے والے غیر انسانی سلوک اور تعصب پر مبنی رویوں پر بھی سنگین سوال اٹھائے گئے تھے ۔ جسٹس نمیش نے اپنی رپورٹ میں بارہ نکاتی سفارشات پیش کیں تھیں ۔جو اس طرح ہیں ۔
1۔دہشت گردانہ حملے کے معاملوں میں صرف گزیٹڈ سطح کے افسران کو ہی گواہ بنایا جائے۔
2۔مبینہ ملزمان سے پوچھ تاچھ کی ویڈو رکارڈنگ کرائی جائے۔
3۔پولیس کی تفتیش کسی دوسرے محکمے کے گزیٹیڈ افسران کی موجودگی میں ہی کرائی جائے
4۔ایسے (دہشت گردانہ ) معاملوں کے تصفیے کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جانی چاہئے
5۔خصوصی عدالتوں میں تعینات افسران کو تصفیہ کے لئے کو ٹا دینے کی شرط نہیں ہونی چاہئے
6۔استغاثہ کے ذریعے ماہر اور قابل وکلا کو ہی حکومت کی طرف سے پیروی کرنی چاہئے۔
7۔ان ( دہشت گردانہ ) معاملوں کے لئے الگ سے خصوصی سیل بنانا چاہئے، جو کیسوں کو جلد حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوں
8۔دہشت گرادانہ معاملوں کےمقدمات کا تصفیہ زیادہ سےسے زیادہ دو سال میں ہو جانے کا انتظام ہونا چاہئے۔اور ہر کا ر وائی کے لئے وقت مقرر کیا جانا چاہئے ۔وقت مقررہ پر مقدمات کا تصفیہ نہ ہونے کی وجو ہات کا جائزہ لینا چاہئے ۔جو افراد تاخیر کے قصور وار ہوں ان کے خلاف کا روائی ہونی چاہئے
9۔متاثرہ فریق کو مناسب معاضہ دینے کا بھی بندو بست کیا جائے
10۔ اچھا کام کرنے والے افسران اور ملازمین کو انعام دئے جانے کا بھی بندو بست ہونا چاہئے
11۔بےقصور لوگوں کو فرضی طریقے سے پھنسانے والے افسران کو سزا دینے کا بھی انتظام ہونا چاہئے
12۔ایسے (دہشت گردانہ) معاملوں کی جانچ سے وابستہ افسران کی سکیورٹی کا بندو بست کیا جانا چاہئے