Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 5, 2020

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاٸے گا۔۔!


 از/ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت۔
==============================
دو فروری ؁۲۰۲۰  کویوگی نام کے ڈھونگی نے دہلی میں اعلان کیا کہ اگر بولی سے نہیں سمجھے تو گولی سے سمجھ جائیں گے ۔ یوگی کے اعلان سے جوش میں آکر کپل گجر نام کا ایک نوجوان شاہین باغ  پہنچ گیا اور بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگا کر ہوائی فائر کرنے لگا ۔ وہاں موجود مظاہرین پر تو کوئی اثر نہیں ہوا مگر انٹرنیشنل ہندو مہا سبھا کو صدر کو لکھنو میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ۔  اسی دن ساکیت گوکھلے نامی ایک آرٹی آئی جہت کار نے ایوان پارلیمان کے پاس مظاہرہ کرکے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کا وضع کردہ  ’’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘‘ والانعرہ بلند کرتے ہوئے جلوس نکالنے کی اجازت مانگی  تو پولس نے اسے اس  کی اجازت دے دی ۔ دو فروری ہی کے دن اتر پردیش کے بارہ بنکی ضلع میں اکھلیش نامی درندہ   اپنی بیوی کا کٹا ہوا سر لے کر بہادرپور گاوں کے جہانگیر آباد پولس تھانے پہنچ گیا ۔ تھانیدار نے جب اس سے سر لینے کی کوشش کی تو وہ  دیش بھکت قومی ترانہ گانے کے بعد
بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگانے لگا۔ 

بظاہر  متفرق نظر آنے والے یہ
 واقعات  باہم مربوط ہیں ۔ ان سب کے پیچھے عدم برداشت کی ذہنیت اور اس  کو  حاصل قوم پرست حکومت کی پشت پناہی کارفرما ہے۔ 
وزیر اعلیٰ کے اہم عہدے پر فائز ہونے کے باوجود یوگی ’’گولی اور بولی ‘‘ کی زبان کا استعمال کرنا  ان کی  بیمار ذہنیت کا غماز  ہے ۔ یہ وہی یوگی ہے جس نے ایوان پارلیمان میں رو رو کر  اسپیکر سومناتھ چٹرجی سے کہا تھا کہ ’’مجھے بچا لیجیے ۔ وہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے‘‘۔  رکن پارلیمان ہونے کے  باوجود یوگی کے بھری مجلس میں  بلک بلک کر رونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ’گولی کی بولی ‘سمجھ  کر ڈر گئے تھے ۔ اب وہ مسلمانوں کو اسی زبان میں دھمکانے کی  کوشش  کررہے ہیں ۔ بلریا گنج کے جوہر پارک میں مظاہرہ کرنے والی  خواتین    پر رات ۳ بجے پولس کے ذریعہ لاٹھی چارج  اور پتھر بازی اسی بزدلانہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ یوگی اور اس کی پولس کو اپنے وقار  کا ذرہ برابر بھی  خیال  ہوتا تو وہ اس طرح شب خون مارنے کی بزدلی سے گریز کرتے  لیکن جس کی اپنی کوئی  عزت ہی نہ ہو اس کو  یہ  احساس کیا  معنیٰ ؟ لکھنو  کی سرد رات میں مظاہرہ  کرنےوالی خواتین سے کھانا اور کمبل چھین لینا ۔ اس کے بعد اعظم گڑھ میں مظاہرین پر رات کے آخری پہر میں ہلہّ بول دینا یہ  ثابت کرتاہے کہ   بھگوادھاری کس قدر بزدل اور سفاک ہوتے ہیں ۔  اس طرح ان لوگوں نے اپنے چہرے پر پڑا سنسکار کے جعلی مکھوٹے کو ازخود نوچ کر پھینک دیا ہے لیکن اس سے اہل ایمان کا حوصلہ پست نہیں ہوگا کیونکہ   بقول مولانا ظفر علی خان ؎
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ایک طرف توخواتین کے شاہین باغ کو دیکھ کر ان بد بختوں کی نانی مر جاتی ہے  اور اس کو ہٹانے کے لیے زعفرانی دہشت گرد عدالت عظمیٰ میں پہنچ جاتے ہیں تو دوسری طرف ساکیت گوکھلے نام کا آرٹی آئی جہت کار جس نے وزارت داخلہ سے ٹکڑے ٹکڑے گینگ سے متعلق معلومات طلب کرکے وزیرداخلہ کی دھوتی کھینچ لی تھی دہلی پولس سے جلوس نکالنے کی اجازت حاصل کرکے بڑی خوبی کے ساتھ  حکومت کے دوغلا پن کو بے نقاب کردیتا ہے۔ اس نے اپنی  درخواست میں واضح طور پر لکھاتھا کہ ۲ فروری کے دن  شام ۵ تا ۷ بجے کے دوران  جنتر منتر کے نکڑ ّسے ٹالسٹائی روڈ ہوتے ہوئے پارلیمنٹ اسٹریٹ پولس تھانے تک جلوس جائے گا ۔ اس میں   شامل ۱۰۰ افراد  (دہلی کی انتخابی مہم میں مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کے ذریعہ وضع کردہ  ) ’’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘‘ کا نعرہ لگائیں گے ۔ الیکشن کمیشن نے تو انوراگ ٹھاکرکی  انتخابی مہم پر اس اشتعال انگیزی کے سبب  عارضی پابندی لگادی لیکن دہلی کی پولس   نے  اس پر اعتراض کرنے کے بجائے  اجازت مرحمت فرمادی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس دہلی میں شاہین باغ کے پرامن مظاہرے پر لوگ ناک بھوں چڑھا رہےہیں ۔ جس ملک میں خواتین پر رات کے تیسرے پہر خواتین کے احتجاج پر شب خون مارا جاتا ہے  وہیں  ایوان پارلیمان کی ناک کے نیچے ’’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘‘ کا اشتعال انگیز نعرہ لگا کر جلوس نکالنے کی سرکاری اجازت مل جاتی ہے ۔ 
 دہلی   کے اندر انوراگ ٹھاکر کے ذریعہ تشدد کی ترغیب  کا  ایک اثر  تویہ ہوا ہے کہ کپل گجر جیسا  بدمعاش پستول لے کر شاہین باغ پہنچ گیا اور  بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگا کر ہوائی فائرکرنے لگا ۔ پولس نے اس پر سخت کارروائی کرنے بجائے تفتیش کی آڑ میں سیاست شروع کردی۔ اس پر عآپ کی جانب سے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی  شکایت درج کرانے پر الیکشن کمیشن کوپولس سے جواب طلب کرنا پڑا لیکن کوئی  گرفتاری وغیرہ نہیں ہوئی   جبکہ ممبئی میں  اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن کے صدر سلمان احمد  پر اشتعال انگیزی کا الزام  لگاکر  انہیں حراست میں لے لیا گیا۔  سلمان کو معتوب کرنے کے لیے ان کی ایک تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پہلے تو میڈیا میں اچھالا  گیا اور پھر ایک ایف آئی آر داخل کرکے یہ ظالمانہ کارروائی کی گئی حالانکہ اگر انتظامیہ پوری تقریر  کو درست تناظر میں سن لیتا تو اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ یہ بھی سرکار کی جانب سے حوصلہ شکنی کی ایک قبیح حرکت ہے۔ 
دہلی کے   کپل گجر کی بزدلانہ حرکت اور یہ اعلان  کہ ’’   ہمارے ملک میں اور کسی کی نہیں چلے گی، صرف ہندوؤں کی چلے گی۔‘‘ نیز  ’’اپنے ہی ملک میں ہم کب تک دب کر رہیں گے ‘‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس کی تربیت سنگھ کی شاکھا میں ہوئی ہے۔ پہلے تو بی جے پی نے جامعہ اور  شاہین باغ پر حملہ کرنے والوں سے ہمدردی جتا کر ہندو انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن جب دیکھا کہ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہورہا ہے تو کپل گجر کو عآپ کا رکن بنادیا اور سنجئے سنگھ کے ساتھ اس کی تصویر شائع کردی مگر کپل گجر کے والد گجے سنگھ نے ایک بیان دے کر بی جے پی کے غبارے کی ہوا نکال دی ۔ انہوں  نےواضح   کیا کہ ان کا یا اہل خانہ میں سے  کسی کا بھی  عآپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ  2012 تک بی ایس پی میں تھے اس کے بعد  سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ۔بی جے پی   اگر اس خیال خام میں مبتلا ہے کہ امت  اس  جھوٹے پروپگنڈے کا شکار ہوکر کیجریوال کی دشمن ہوجائے گی تو ۸ فروری کو پھر ایک بار دہلی کے مسلمان اس کی یہ غلط فہمی دور کردیں گے۔ اس ملک کامسلمان  دیگر اہل وطن کی مانند سیاسی  احمق نہیں  ہے۔  وہ اپنے جذبات کا اظہار تو کرتا ہے لیکن  جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے ووٹ دیتے وقت عقل کا استعمال بھی  خوب کرتا ہے۔  ایوان پارلیمان میں این آر سی اور این پی آر پر مودی سرکار  اپنا قدم پیچھے ہٹانے لگی ہے بعید نہیں کہ  بہت جلد اس سے پوری طرح تائب بھی ہوجائے ۔  ایسا کرنے میں  ہی اس کی بھلائی ہے ورنہ وہ خود اپنا خسارہ کرے گی۔