Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 27, 2020

دہلی_کی_المناک_صورتحال : حالات ہنوز کشیدہ ہیں، اموات کی صحیح تعداد چھپائی جارہی ہے:*دہلی سے گراؤنڈ رپورٹ*

از/سمیع اللہ خان /نٸی دہلی /صداٸے وقت /27 فروری 2020.
=============================
آج ۲ دن ہورہےہیں دہلی میں، یہاں پر بہت کچھ بدل گیا ہے، خاص طورپر نارتھ ایسٹ کے علاقوں میں پہلے جیسی بات نہیں رہی ہے، ڈر، خوف اور انجانی سی بازگشت سنائی دیتی ہے
ہم لوگوں کی کوشش یہی ہےکہ خاص طورپر ٹارگٹ کیے گئے علاقوں، جعفرآباد، مصطفیٰ آباد اور چاند باغ تک پہنچیں اور وہاں سے براہ راست حقائق کو اکٹھا کریں لیکن پولیس پہروں اور پرمیشن کی بنا پر وہاں تک پہنچ نہیں پارہے ہیں امید ہیکہ پہنچ جائیں گے
نوئیڈا کے علاقوں سے ہوتے ہوئے 
ہم متاثرین کی خبرگیری کے لیے GTB ہاسپیٹل پہنچیں، وہاں پہنچنے کے بعد ایک گھنٹے کی مرحلہ وار کارروائیوں کے بعد ہمیں ہسپتال کے ایمرجینسی حصے اور مردہ خانے تک پہنچنے میں کامیابی ملی، پہنچنے کے بعد جو منظر میں نے نوٹ کیا وہ کچھ یوں ہے:
یہاں کا منظر ایک بالکل ہی زندہ دل قسم کے انسان کو بھی سکتے میں ڈالنے کے لیے کافی ہے، یہاں پر مظلوموں کی خاص بات یہ ہیکہ ان کی آنکھیں خشک ہوچکی ہیں، ایک نوجوان عمر کے بچے سے میں نے پوچھا کہ کچھ بتا سکتے ہو، اس نے ٹکا سا جواب دیا " کچھ نہیں 
آگے مردہ خانے کی طرف پہنچا
یہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے، کسی کی لاش برآمد ہوتی ہے اندر سے، میڈیا والے جھپٹ پڑتے ہیں، ورثاء پیچھے رہ جاتےہیں میڈیا والوں کو خیال آتا ہے تو پیچھے مڑتے ہیں جس کےبعد کمر سے جھکی ہوئی ایک بوڑھی خاتون رندھی ہوئی آواز میں چلا کر کہتی ہیں " نہیں نہیں اس کو (لاش) بھی نوچ ڈالو "
مرحلہ وار لاشیں باہر آتی رہیں اور یہی منظر دوبارہ ہوتا رہتاہے
ہسپتال میں متاثرہ علاقوں کے خاصے افراد تھے میں نے مستقل پوچھ پوچھ کر متعلقہ مقامات کے بھائیوں سے بات چیت کی: 
بابا پور کے ایک شخص نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ ۳۰ لوگوں کے مرنے کی خبریں بالکل جھوٹی ہیں، اس ہسپتال کی ہی تلاشی لے لو کتنی لاشیں باہر آتی ہیں خود دیکھ لینا،
ایک متاثرہ خاندان سے بات کی، جوکہ اب صرف ایک بوڑھی خاتون اور نوجوان لڑکی پر مشتمل ہے 
میں نے پوچھا ماں جی ہوا کیا تھا کچھ بتا سکتی ہیں؟ 
انہوں نے کہا: کچھ جانور گھس آئے تھے شیطان 
ہمارے گھر والے پلنگ اور گدوں کے بیچ میں چھپ گئے تھے لیکن ان لوگوں نے ڈھونڈتے ہوئے گدوں پر چاقو مارا جو اندر چھپے ہوئے شخص کو لگ گیا جس سے وہ چیخنے لگا اس کے بعد وہ لوگ چاقو زور زور سے اندر تک گھوپنے لگے 
نوجوان لڑکی سے میں نے پوچھا کہ کیا فسادیوں میں سے کسی کو پہچانتی ہو 
 لڑکی نے کہا کہ بالکل نہيں، ہماری طرف کے تو لگتے بھی نہیں تھے
اشوک نگر کے اس خاندان سے ملاقات ہوئی جن کے یہاں مسجد پر بھگوا جھنڈا لہرایا گیا تھا 
ان لوگوں نے اس واقعے کی تصدیق بھی کی، بتایا کہ دو دن تک آر ایس ایس کا جھنڈا مسجد پر لگا ہوا تھا اور کہا کہ اب وہاں کے تقریباﹰ سارے ہی مسلمان نقل مکانی کرچکے ہیں، وہاں ہمارے گھروں کو جلا دیا گیا، اس خاندان کے نوجوان لڑکے سے مسلسل بات ہوئی، اس کی آنکھوں سے اشتعال مترشح تھا
شام ہوتے ہوتے ایسے کئی افراد سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ نارتھ ایسٹ دہلی میں ابھی بھی حالات نارمل نہیں ہیں، فورسز دھمکیاں دیتی ہیں، جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، آتش گیر مادوں خاص طور سے پٹرول بموں کے ذریعے وہ لوگ پھر سے موقع کی تاک میں ہیں
جمنا طرف کے ایک سنجیدہ شخص سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے بھی اموات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بھی کہا کہ ہرحال میں سو سے زائد اموات ہوئی ہیں، جب فورسز نے کرفیو لگایا تب نالوں تک میں لاشیں پڑی ہوئی تھیں پھر نجانے کہاں گئیں ۔
میں نے کہا کہ رویش کمار جیسے جرنلسٹ نے بھی کم ہی تعداد بتائی ہے، لیکن انہوں نے تعداد کے سلسلے میں رویش کمار سے بھی سخت اختلاف کیا اور کہا کہ نقصان اصلاً ہمارا ہوا ہے،اور رویش صاحب برابر سرابر دکھانے کی کوشش کررہےہیں، اور اگر کہیں بھی ہندؤوں کا نقصان شروعاتی دو دنوں میں ہوا ہے تو وہ بھی ہندو غنڈوں نے کروایا ہے وہ مسلمانوں پر حملے کرتےتھے ہماری دوکانیں جلاتے تھے جس کی لپیٹ میں غلطی سے ہندو بھی آجاتے تھے، اسي طرح ہندوﺅں کا نقصان ہواہے، شروعات میں لمبے سَمَے تک ہم لوگ تو سمجھ ہی نہیں پارہے تھے کہ یہ آفت کہاں سے آگئی اور ایسا کیوں ہورہاہے ہمارے لیے سب کچھ اچانک تھا ایسے میں ہم لوگ سب سے پہلے اپنی جان بچانا چاہتےتھے اُن لوگوں کا نقصان کیا کرتے
اشوک نگر کے نزدیکی علاقے کے دو افراد نے بتایاکہ ہمارے یہاں ہندؤوں کی آبادی معمولی تھی لیکن ہم نے رات رات بھر پہرے دے کر ان کے گھروں اور مندر کی حفاظت کی
میں مسلسل اموات کے متعلق سوچتا جارہا تھا کیوں کہ یہاں ہر شخص یہی کہتا رہا کہ اموات بہت زیادہ ہوئی ہیں، اور متاثرین یہ بات بہت سختی سے کہہ رہےہیں 
یہ سوال میں نے کئی لوگوں سے کیا، اور ایک بوڑھے چچا سے بھی کیا
انہوں نے کہا: " بابو فساد میں مرنے والے گنتی میں نہیں آتے بلکہ وہ لاپتہ کے خانے میں لکھے جاتےہیں " 
بات میری سمجھ میں آگئی
شام کے قریب ساتھیوں نے بتایاکہ سی کے سُبیر صاحب آئے ہوئے ہیں، ان سے ملاقات ہوئی، یہ کیرالہ کے مسلم لیڈروں میں سے ہیں 
اس دوران اس وسیع و عریض ہسپتال میں گھومتا رہا، چاروں طرف سوگواری نظر آئی، مظلومین کا غصہ پولیس اور میڈیا پر پھوٹ پڑتاہے، وردی والے ہتھیارے اور گودی میڈیا واپس جاؤ کے نعرے لگنے لگتے ہیں، 
تباہی، اور اجڑتے آشیانوں کا یہ منظر ماضی کی جیتی جاگتی تاریخ اور مستقبل کے لیے درد انگیز سبق ہے
میں نے بارہا کوشش کی کہ یہاں لوگوں کی ڈھارس بندھاؤں، انہیں تسلی دلاؤں، کسی کی کچھ مدد ہی کردوں، لیکن قریب جا کر ہمت ہار جاتا تھا، ان لوگوں کے چہروں پر جو درد ہے وہ ڈراتا ہے،
میں یہاں سے بالکل صاف طورپر یہ بات بتانا چاہتاہوں ان لوگوں کو جو بار بار یہ کہہ رہےہیں کہ لوگوں کو مقابلہ کرنا چاہیے،
یہاں ایسا کچھ نہیں ہے، میں اپنی آنکھوں سے صاف صاف ایک کثیر آبادی کو ٹوٹا ہوا دیکھ رہا ہوں ، ایسے فزعِ اکبر سے گزرنے کے بعد زندگی برائے نام ہوجاتی ہے، چہ جائیکہ ان میں قوت مدافعت بچے 
گھر کے گھر کیسے اجڑتے ہیں، پسماندگی اور ناخواندگی کیسے پھیلتی ہے، ہماری معاشی حالت کیسے مفلوک ہوتی ہے، نوجوانوں میں غصہ، گرمی، ردعمل کی نفسیات، جنون اور آخری درجے کی نفرتیں کیسے پروان چڑھی ہیں، اگر آنکھوں سے دیکھنا ہو تو GTB ہسپتال ہو آئیے
مغرب کے بعد میں ان لوگوں کے درمیان سے روانہ ہوگیا ہوں، ناقابل بیان کیفیت ہے، اسلیے صرف دیکھے اور سنے ہوئے کو آپ تک من و عن پہنچا رہا ہوں 
دیگر مشاہدے آپ خود آکر کیجیے_
*سمیع اللّٰہ خان*
27 فروری، بروزجمعرات ۲۰۲۰ 
 ksamikhann@gmail.com