Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 9, 2020

شہریت ترمیمی قانون اور ہندوستان کی موجودہ صورت حال۔۔۔۔۔۔۔ایک عمدہ تجزیہ.

از/محمد سالم سریانوی/صداٸے وقت 
===============================
اس وقت ہمارا ملک جن صبر آزما حالات سے گزر رہا ہے یہ کسی بھی شخص پر مخفی نہیں ہے، اس ملک پر آج سے پہلے نہ معلوم کتنے حالات آئے اور گزر گئے، کتنی بار یہ ملک مصائب وآلام کی آماجگاہ بنا رہا ہے، لیکن پھر حالات معمول پر آگئے، البتہ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں شاید ایسے کبھی نہیں رہے ہیں، پورا ملک محض ایک قانون کی وجہ سے سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔کہنے کے اعتبار سے ہمارا ملک ایک ’’جمہوری ملک‘‘ ہے، جس میں آئین ودستور کی بالادستی ہے اور ہر شہری اس کا پابند ہے، لیکن اِدھر چند سالوں سے ملک کے جو حالات بنے ہیں اس نے اس آئینی بالادستی کو صرف ختم ہی نہیں کیا ہے، بل کہ اس کا بھونڈا مذاق بنادیا ہے، آئے دن ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی جمہوری ودستوری ملک کے باشندہ نہیں، بل کہ کسی ہٹلر شاہی ملک کے رہنے والے ہیں، مختلف اور ان گنت قسم کے مسائل ومصائب سے یہاں کی اقلیتیں، بالخصوص مسلمان دوچار ہیں، اور دن بدن ان میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ابھی حال میں مرکزی حکومت نے ’’شہریت ترمیمی قانون ۲۰۱۹ء‘‘ (Citizenship Amendment Act 2019) کے نام سے جو نیا قانون بنایا ہے وہ یہاں کی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم ہی کی ایک کڑی ہے، جو آگے چل کر این آر سی (National Rejister of Citizens) سے مل کر ایک نئی خونچکاں مظالم کی داستاں اس ملک میں رقم کرسکتی ہے۔ہمارا ملک ’’ہندوستان‘‘ جس کی تعمیر وترقی میں مسلمانوں کا سب سے اہم رول رہا ہے آج ان مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی مکمل کوشش جاری ہے اور نہایت تیزی کے ساتھ ان خطوط پر کام کیا جارہا ہے جس سے مسلمانوں کو یہاں سے بے دخل کیا جاسکے اور ان کو اس ملک کی عام دھارا سے الگ کیا جاسکے، موجودہ مرکزی حکومت نے ۲۰۱۴ء میںاقتدار میں آنے کے بعد ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اور مستقبل میں ملک کی تعمیر وترقی کے بہترین خواب لوگوں کو دکھائے تھے، لیکن وہ محض ’’اچھے دن‘‘ کے خواب ہی تھے، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا، مرکزی حکومت نے اپنے پہلے پانچ سالوں میں ظاہری طور اچھے دن کے وعدے کیے، لیکن ان کو پوار نہیں کیا، اسی کے ساتھ پورے ملک میں مذہبی منافرت اور بٹوارے کو بھی ایک منظم پلاننگ کے تحت فروغ دیا، چناں چہ اسی مذہبی منافرت اور رسہ کشی کی بنیاد پر ۲۰۱۹ء کا لوک سبھا کا الیکشن بھی جیت گئی، جیت کے بعد اپنے سابق نعرے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ میں ایک جملہ کا اضافہ کرکے اس کو ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘‘ کا ایک نیا پر فریب نعرہ دیا، جس میں مذہبی منافرت کو بظاہر ختم کردیا گیا، اور اس نعرے سے ایسا معلوم ہونے لگا کہ شاید حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں جو وعدہ کیا تھا اس کو پورا کرے گی اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو بھی اعتماد میں لے کر ملک کی تعمیر وترقی میں قدم بڑھائے گی، لیکن بہت جلد ہی لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ یہ محض ایک نعرہ تھا، جس کا باطن اور حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں تھا، چناں چہ حکومت نے اپنے ایجنڈوں پر نہایت تیزی سے کام کرنا شروع کردیا، جس سے ملک میں عجیب سی بے چینی پیدا ہوگئی، جو روز بروز بڑھ ہی رہی ہے، اور اس نے مختلف معاملات پر نئے قانون کا نفاذ کیا اور بعض ناقابل تسلیم عدالتی فیصلے وجود میں آئے، جس میں تین طلاق کا قانون، جو کہ صدر جمہوریہ کی پہلی استقبالیہ تقریب ہی میں واضح ہوگیا تھا، دفعہ ۳۷۰، بابری مسجد فیصلہ اور اب سی اے اے ہے، یہ سب مذہبی منافرت اور باہمی اختلاف سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔اِدھر گزشتہ مہینے دونوں ایوانوں میں وزیر داخلہ کی طرف سے ’’شہریت ترمیمی قانون‘‘ پیش کیا گیا، جس کو دونوں ایوانوں میں کثرت رائے سے قبول کرلیا گیا، ایوان زیریں (لوک سبھا) میں ۱۰/ دسمبر کو پیش ہوا اور کثرت رائے سے پاس ہوگیا، پھر ایوان بالا میں ۱۱/دسمبر ۲۱۰۹ء کو پیش ہوا اور اسی دن رائے شماری میں اکثریت کی بنیاد پر منظور ہوگیا اور ۱۲/ دسمبر کو صدر جمہوریہ کی دستخط اور منظوری کے بعد باقاعدہ ایک قانون بن گیا، لیکن اس کے فورا بعد پورے ملک میں اس کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا، جس کا سلسلہ شمال مشرقی ریاست بنگال سے شروع ہوا اور دہلی پہونچ گیا، دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ وطالبات کی طرف سے اس قانون کے خلاف ایک پر امن احتجاج کیا گیا، لیکن وہ پولیس کی تشدد کی نظر ہوگیا، طلبہ وطالبات پر لاٹھی چارج کی گئی، کیمپس اور لائبریری میں گھس کر انھیں بری طرح سے زد وکوب کیا گیا اور ایک بڑی تعددا کو حراست میں بھی لیا گیا، جس سے اس احتجاج میں شدت آگئی، اس کے بعد پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا، جو کہ آج بھی جاری ہے۔ خود دہلی میں جامعہ کے احتجاج کے علاوہ عورتوں کی جانب سے شاہین باغ میں مسلسل احتجاج ہورہا ہے، جس میں ہر قسم کی عورتیں، بچیاں اور بوڑھی عورتیں بھی نہایت جوش وخروش کے ساتھ شریک ہوتی ہیں اور حکومت سے اس ہوتی ہیں اور حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔
سی اے اے کیا ہے؟
سی اے اے Citizenship Amendment Act  کا مخفف ہے، جسے اردو میں ’’شہریت ترمیمی قانون ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کی آزادی کے بعد ایک بڑا مسئلہ ہندوستانی شہریت تھا، چناں چہ باقاعدہ اس کے لیے قانون بنایا گیا، جو مختلف مراحل میں ہوتے ہوئے ۱۹۵۵ء میں مکمل طریقے سے نافذ ہوا ، بعد کے ادوار میںاس کی بعض شقوں میں تبدیلی بھی ہوئی ہے ، لیکن وہ دستور کے بنیادی نقاط سے متصادم نہیں تھی، بل کہ اسی کے دائرے میں تھی، ادھر جب ۲۰۱۹ء کا الیکشن سامنے آیا تو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں سابقہ قانون میں تبدیلی کرنے کو جگہ دی اور باقاعدہ ’’سی اے بی‘‘ لانے کا وعدہ کیا، تاکہ یہاں گھس پیٹھیوں (مسلمانوں) کو باہر کا راستہ دکھایا جاسکے، اور لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا اور نتیجۃ ًانتخاب میں کامیاب رہی، چناں چہ پارٹی نے اپنے نظریات کے مطابق پہلے کے شہریتی قانون میں تبدیلی کے لیے باقاعدہ قانون بنانے کی فکر کی اور حسب ضابطہ دونوں ایوانوں میں پاس کرایا، جو صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد شہریت کا ایک نیا قانون بن گیا اور اس کوCitizenship Amendment Act 2019 کا نام دیا گیا ہے، اس قانون کی بنیادی دفعات درج ذیل ہیں:(۱) پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں مذہبی استحصال کا شکار ہونے والے ہندو، سکھ، عیسائی، بودھ، جین اور پارسی لوگوں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی۔(۲) اس قانون کی رو سے پڑوسی ممالک کی وہ اقلیتیں جو ہندوستان میں ۵/ سال سے رہ رہی ہوں وہ یہاں کی شہریت حاصل کرسکتی ہیں، پہلے یہ مدت ۱۱/سال تھی، اب اس میں تخفیف کرکے ۵/ سال کردی گئی ہے۔(۳) پڑوسی ممالک کی وہ اقلیتیں جو ہندوستان میں ۳۱/ دسمبر ۲۰۱۴ء سے پہلے داخل ہوئی ہوں اور یہاں مقیم ہوں وہ یہاں کی شہریت حاصل کرسکتی ہیں۔

سی اے اے کے خلاف احتجاجات
بی جے پی کے ۲۰۱۴ء میں اقتدار میں آنے کے بعد جلد ہی ۲۰۱۶ء میں ’’شہریت ترمی بل‘‘ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا، لیکن پاس نہیں ہوسکا ، پھر اسی دوران بی جے پی کی مدت کارکردگی مکمل ہوگئی، چناں چہ اس نے اگلے الیکشن کے لیے جب انتخابی منشور جاری کیا تو اس میں بطور خاص اس بل کو رکھا، جیسا کہ پارٹی کی انتخابی منشور میں دیکھا جاسکتا ہے۔ (گھوشڑا پتر ۲۰۱۹ء ص:۱۴)چناں چہ جب بی جے پی دوبارہ اکثریت کے ساتھ حکومت میں آئی تو اس کی رعونت میں اضافہ ہوگیا، نتیجۃ یکے بعد دیگرے ایسے قوانین کا نفاذ کیا جس کا تعلق براہ راست مسلم اقلیتوں سے پڑتا ہے، جس میں تین طلاق کا مسئلہ، دھارا ۳۷۰، بابری مسجد فیصلہ اور اب شہریت ترمیمی قانون۔ادھر بل پیش ہونے سے پہلے ہی سے ملک میں اس کے خلاف احتجاج اور مخالفت کی شروعات ہوگئی تھی، پھر جب بل پیش ہوا تو مزید ناراضگی اور احتجاج میں اضافہ ہوگیا، چناں چہ شمال مشرقی ریاستوں میں بل کے پیش ہونے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر احتجاجات ہوئے، بالآخر یہ بل ۱۱/ دسمبر ۲۱۰۹ء کو ایوان بالا (لوک سبھا) سے رائے شماری کی کثرت کے ذریعہ پاس ہوگیا، اس کے اگلے دن صدر جمہوریہ نے اس کی منظوری بھی دے دی، اس کے بعد سے اب تک اس قانون کے خلاف پورے ملک میں احتجاج جاری ہے، جو گاؤں، دیہات، قصبوں سے لے کر بڑے شہروں کو بھی شامل کیے ہوئے ہے، اس احتجاج میں مسلمانوں کے ساتھ برادران وطن، سیاسی پارٹیاں، علاقائی تنظیمیں اور دوسری جماعتیں بھی شریک ہیں، اس احتجاج کی گونج صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی سنائی دے رہی ہے، اور ان ممالک میںبھی بڑے پیمانے پر احتجاج درج کرائے گئے اور اب بھی جاری ہیں۔سی اے اے کے خلاف سب سے اہم ملک میں اس وقت دو احتجاج جاری ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ وطالبات سے ہے، جنہوں نے لاٹھیاں کھائیں، آنسو گیس کے گولے برداشت کیے، پولیس کے تشدد وبربریت کا نشانہ بنے، لیکن پھر بھی مسلسل محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ملک وقوم کی لاج رکھے ہوئے ہیں، دوسرا احتجاج ’’شاہین باغ‘‘ کا ہے جس کی قیادت قوم کی مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں کررہی ہیں، جو کہ ہندوستانی تاریخ کا عدیم المثال احتجاج ہے، اس احتجاج نے ملک کو ایک نئی کروٹ دیدی ہے اور ملک کو اس بات کا احساس دلا دیا ہے کہ قوم کی بیٹیاں ہرگز پیچھے اور بزدل نہیں ہیں، بل کہ قیادت کررہی ہیں۔سی اے اے کے خلاف اترپردیش میں دو ہفتے پہلے بڑے پیمانہ پر احتجاجات ہوئے، لیکن وہ بھگوادھاریوں اور پولیس کی نظر عتاب کا شکار ہوگئے، اور ان احتجاجات میں پولیس نے نہتھے ومعصوم شہریوں اور ہندوستانیوں پر جس طرح کا ظلم وستم روا رکھا وہ تاریخ کا بد ترین واقعہ ہے، مختلف مقامات کی تصاویر اور ویڈیوز شوسل میڈیا، نیز چینلوں پر موجود ہیں جن سے یوپی پولیس کی ظلم وبربریت کی خوفناک داستان ابھر کر سامنے آتی ہے، ان تصاویر اور ویڈیوز کو دیکھ کر بدن کانپ جاتاہے۔اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی انسان نہیں، بل کہ درندے ہیں، جو انسانوں کے خون کے پیاسے ہیں، یہی وجہ ہے کہ صرف اترپردیش میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف پولیس نے جو کریک ڈاؤن کیا ہے اس میں اب تک تقریبی رپورٹ کے مطابق دو درجن سے زیادہ افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ان میںبھی اکثریت کی موت پولیس کی گولی لگنے سے ہوئی ہے، ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین کو اٹھاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا، جن کی ایک معتد بہ تعداد ضمانت پر رہا ہوئی ہے، لیکن ایک بڑی تعداد ابھی بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، نا معلوم کتنے ہزار افراد پر ایف آئی آر درج ہے، اسی کے ساتھ یوپی حکومت کا ’’ہٹلری فرمان‘‘جاری ہوا تھا کہ پولیس سنگ باری اور آتش زنی کرنے والوں کی جائیداد کی قرقی کرے اور ان کو بیچ کر ضائع ہونے والی املاک کی بھرپائی کرے، چناں چہ اس فرمان کے بعد پولیس کو موقع مل گیا، انھوں نے جی بھر کر اپنی بھڑاس نکالی اور مزید یوپی والوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بننا پڑا، جس کی اچھی خاصی تفصیل ہے۔سی اے اے جیسا کالا قانون پاس ہونے سے لے کر اب تک بے شمار احتجاجات ملک وبیرون میں ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں، لیکن حکومت پر جوں بھی نہیں رینگ رہی ہے، بل کہ اس کے برعکس حکومت نے مخالفت کرنے والوں کو ظلم کا نشانہ بنایا، ساتھ ہی اس سیاہ قانون کی حمایت میں ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے اور اب بھی نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں، ادھر وزیر داخلہ حمایت میں ریلیاں اور کانفرنسیں کررہے ہیں، اور لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ سی اے اے سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں، یہ قانون صرف شہریت دینے کے لیے ہے، نہ کہ کسی کی شہریت لینے کے لیے، اسی طرح کا ایک پروگرام انھوں نے جے پور راجستھان میں بھی کیاجہاں ملک کے سخت تشویناک اور کرب ناک حالات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے فرعونی و ہٹلری انداز میں کہا کہ ’’ہم شہریت ترمیمی قانون سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘، اس فرمان کے چند دن کے بعد پھر لکھنؤ میں ایک حمایتی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے یہی بات ذیل کے الفاظ سے دہرائی: ’’جسے جتنی مخالفت کرنی ہے کرے، لیکن سی اے اے واپس میں ہوگا‘‘۔مطلب صاف ہے کہ کچھ بھی ہوجائے، تم کچھ بھی کرلو، ہمارا یہ قانون بن گیا تو بن گیا، کوئی سنوائی نہیں، جان جائے یا کچھ اور جائے۔ لیکن شاید ان کو معلوم نہیں یا احساس نہیں کہ یہ دنیا کسی اور کی تخلیق کردہ ہے، اس دنیا میں فقط اسی کی قدرت کارفرما ہوتی ہے، اگر کوئی انسانوں پر ظلم کرتا ہے تو اس کا انجام بھی دیکھ لیتا ہے، چہ جائے کہ اس کو ڈھیل دی جاتی ہے، لیکن جب حساب کا مقررہ وقت آتا ہے تو ایسے فرعونوں کے غرور کو لمحوں میں خاک میں ملا دیا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے نشان عبرت ہوجاتے ہیں، اس کی انسانی تاریخ میں بہت سی مثالیں ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ایک بہت بڑے ظالم وطاغی بادشاہ کا تذکرہ کیا ہے جس کو ہر کوئی جانتا ہے، بل کہ اس کا نام ظلم وبربریت کے لیے استعارہ ہے، جس کو دنیا ’’فرعون‘‘ کے نام سے جانتی ہے، اس ظالم وسرکش بادشاہ نے آخری درجہ کا ظلم اپنی رعایا پر ڈھا رکھا تھا اور اتنا متکبر تھا کہ اپنے کو ’’ربکم الاعلی‘‘ کہتا ہے، لیکن اس کے ظلم کے انجام کا بھی ایک وقت اللہ کی طرف سے مقرر تھا، چناں چہ جب وہ وقت آیا تو ایسی سخت سزا دی گئی کہ وہ باعث عبرت بن گیا۔ سورہ قصص میں اللہ تعالی نے اس کے ظلم وتکبر کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: وَاسْتَکْبَرَ ہُوَ وَجُنُوْدُہُ فِیْ الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوْا اَنَّہُمْ اِلَیْنَا لَا یُرْجَعُوْنَ ٭ فَاَخَذْنَاہُ وَجُنُوْدَہُ فَنَبَذْنَاہُمْ فِیْ الْیَمِّ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظَّالِمِیْنَ۔ (القصص:۳۹-۴۰) غرض یہ کہ اس نے (یعنی فرعون نے) اور اس کے لشکروں نے زمین میں ناحق گھمنڈ کیا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ انھیں ہمارے پاس واپس نہیں لایا جائے گا؛ اس لیے ہم نے اس کو اور اس کے لشکروں کو پکڑ میں لے کر سمندر میں پھینک دیا، اب دیکھ لو کہ ظالموں کا انجام کیسا ہوا؟ (توضیح القرآن)

سی اے اے کی مخالفت کیوں؟
برسر اقتدار حکومت نے ایک قانون بنایا، لیکن عوام کو وہ قانون قبول نہیں، آخر ایسا کیوں؟ کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے خلاف ہے، یا پھر کوئی اور وجہ ہے۔ اس ذیل میں ہمیں سب سے پہلے اپنے آئین ودستور کی بنیادی دفعات کو دیکھنا ہوگا، جو کہ ہر شہری کو برابر دی جاتی ہیں، یہ بات اپنی جگہ ہے کہ موجودہ حکومت ’’ہندوتوا‘‘ پر یقین رکھتی ہے، یہ ’’منوسمرتی‘‘ کو آئین وقانون تسلیم کرتی ہے، اس لیے اسلام اور مسلم مخالفت اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی اور ان تمام چیزوں میں قدرے مشترک یہی ’’ہندوتوا‘‘ نظریہ ہے، جس کی بنیاد پر دوسرے نظریات قائم ہیں، اس پر ان شاء اللہ اگلے شمارہ میں گفتگو کی جائے گی، اس لیے یہ بات مسلم ہےکہ سی اے اے میں اسلام مخالف نظریہ بھی داخل ہے۔لیکن یہاں مخالفت اور احتجاج کی بنیاد وہ ’’جمہوریت‘‘ہے جس کی بنیاد پر ہندوستان ’’ہندوستان‘‘ ہے، جس میں مذہب، ذات، علاقہ اور نسل کی بناء پر کوئی تفریق نہیں، بل کہ یہاں کا ہر باشندہ ’’ہندوستانی‘‘ ہے اور اسے ہندوستانی ہونے کے ناطے بنیادی حقوق حاصل ہیں، لیکن نئے قانون میں اس ’’جمہوریت‘‘ کا خون کردیا گیا اور ہندوستانی آئین کی بنیادی دفعات کی کھلے عام دھجیاں اڑائی گئی ہیں، اسی لیے ’’ہندوستانی‘‘ عوام کو کسی بھی قیمت پر یہ قانون تسلیم نہیں ہے اور تسلیم ہونا بھی نہیں چاہیے۔ یہ قانون آئین ودستور کی جن بنیادی دفعات سے متصادم ہے وہ ہماری تحقیق میں درج ذیل ہیں:ان دفعات میں جانے سے پہلے دستور کی ’’تمہید‘‘ کا بالکل ابتدائی پیراگراف بھی بہت اہم ہے جو اردو ترجمہ میں ذیل کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے:’’ہم بھارت کے عوام متانت وسنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں اور اس کے تمام شہریوں کے لیے حاصل کریں:انصاف: سماجی، معاشی اور سیاسی،آزادی: خیال، اظہار، عقیدہ دین اور عبادت،مساوات بہ اعتبار حیثیت اور موقع۔ اور ان سب میں اخوت کو ترقی دیں، جس سے فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد اور سالمیت کا تیقن ہو۔‘‘ (بھارت کا آئین اردو ترجمہ ص:۳۵، تمہید، شائع کردہ: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ووزارت ترقی انسانی وسائل دہلی، سن اشاعت ۲۰۱۰)آئین میں خط کشیدہ جملہ اسی رسم الخط میں ممتاز کیا گیا ہے، جو کہ اس کی اہمیت کی طرف مشیر ہے، اس لیے ہم نے بھی اس کو ممتاز کیا ہے، اب ان دفعات پر نظر ڈالتے ہیں، جو کہ موجودہ قانون سے متصادم ہیں:(۱)  [دفعہ نمبر۱۳-۲]  مملکت کوئی ایسا قانون نہ بنائے گی جو اس حصہ سے (یعنی بنیادی حقوق سے)عطا کیے ہوئے حقوق کو چھین لے یا ان میں کمی کرے اور کوئی قانون جو اس فقرہ کی خلاف ورزی میں بنایا جائے، خلاف ورزی کی حد تک باطل ہوگا۔ (بھارت کا آئین اردو ترجمہ ص:۴۳)(۲) [دفعہ ۱۴] مملکت کسی شخص کو بھارت کے علاقہ میں قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی۔ (ص:۴۴)(۳) [دفعہ ۱۵-۱] مملکت محض مذہب، نسل، ذات، جنس، مقام پیدائش یا ان میں سے کسی کی بنا پر کسی شہری کے خلاف امتیاز نہیں برتے گی۔ (ص:۴۴)(۴) [دفعہ ۲۱] کسی شخص کو اس کی جان یا شخصی آزادی سے قانون کے ذریعہ قائم کیے ہوئے ضابطہ کی سوا کسی اور طریقہ سے محروم نہ کیا جائے گا۔ (ص:۴۹)یہ چند دفعات آئین ودستور میں مصرح ہیں جن کو ہم نے اردو ترجمہ سے لیا ہے، ان دفعات کو پڑھنے سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ نیا قانون ان دفعات میں سے ۱۳، ۱۴ اور ۲۱ کے صریح خلاف ہے، کیوں کہ ان دفعات میں مساوات، عدم امتیاز اور شخصی آزادی دی گئی ہے۔جب کہ نئے قانون میں بنیاد ہی مذہبی تفریق ہے، جو مساوات اور عدم امتیاز کے خلاف ہے، اس لیے ہم تمام پکے اور سچے ہندوستانیوں کو یہ قانون ہر گز تسلیم نہیں ہے۔برسر اقتدار حکومت اگر واقعی ہندوستانی عوام کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ اصل مسائل پر گفتگو کرے، ملک میں روزگاری، کاشتکاری، معیشت اور دوسری چیزوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور عوامی فلاح وبہبود کے لیے کام کرے اور غیر ضروری کام سے اپنے کو دور رکھے، ورنہ جو عوام انتخاب کرکے کرسی دے سکتی ہے اور زوال اور چھیننے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔