Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 19, 2020

موج خیال۔۔۔۔۔کیا پانچ سو کا نوٹ آپ کی کاپی بچا سکتا ہے۔؟



تحریر: وزیر احمد مصباحی (بانکا)
شعبہ تحقیق: جامعہ اشرفیہ مبارک پور
رابطہ نمبر: 6394421415
wazirmisbahi87@gmail.com۔۔۔

     صداٸے وقت /عاصم طاہر اعظمی۔
=============================
      کہتے ہیں کہ اگر چھوٹا سے چھوٹا کام بھی اخلاص و وفا اور صدق و عدل کے دامن میں انجام پذیر ہوتا ہے تو پھر وہ ایک دن سماج و معاشرے میں اپنی اہمیت و افادیت کے آگے لوگوں کو سر تسلیم خم کر دینے پر اس طرح مجبور کر دیتا ہے کہ کوئی صائب الرائے اسے غلط قرار نہیں دے سکتا ہے۔ہاں ! اس کے بالمقابل وہ بڑا سے بڑا کام جس کا انسانی کردار سازی میں اگرچہ اہم مقام ہے ،اگر وہ کذب و افترا اور دھوکہ دھڑی و فریب کاری پر مشتمل ہو تو پھر وہ اپنا مرتبہ ضرور کھو دیتا ہے۔
      آج کی اس پرفتن دور میں یقیناً تعلیمی نظام اجڑی زندگی میں بہار لانے کی طاقت و قوت رکھتا ہے۔اس ضمن میں کسی بھی تہذیب و تمدن کو آپ بطور مثال سمجھ سکتے ہیں۔جس کسی قوم نے بھی نظام تعلیم کو سنوارا ۔۔۔۔اس عمل سے خود اس کی زندگی سنور گئی اور زمانے کی آنکھ میں علم و ادب کا بادشاہ بن کر نکلی ہے۔مگر افسوس اگر کسی پر ہے تو وہ بس آج ہماری قوم پہ ہے۔آپ ہندوستان کے جس علاقے میں بھی چلے جائیں ،آپ کو یوں تو دیکھنے کے لیے بہت سارے ایسے جامعات و ادارے مل جائیں گے جو تعلیم کے نام پر وجود میں آئے ہیں۔مگر " الا ماشاءاللہ" چند ہی ادارے ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دستور اساسی پہ کما حقہ عمل کرتے ہوں ۔وطن عزیز میں کثیر تعداد میں یونیورسٹیوں ،سرکاری مراعات سے چلنے‌والے جامعات،اسکول ،کالجز اور مذہبی اداروں کا ایک جال سا پھیلا ہوا ہے۔ مگر افسوس کہ چند کے علاوہ اکثر پسماندگی و تنزلی کے شکار ہیں۔نیچے سے اوپر تک کے تمام ممبران و انتظامیہ اس قدر بے راہ روی کے شکار ہیں کہ وہ موقع پاتے ہی اخلاقی اقدار کی ساری قدریں پامال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔بہار مدرسہ بورڈ کے تحت ہونے والے وسطانیہ،فوقانیہ،مولوی اور پھر مولانا مظہر الحق یونیورسٹی کے تحت منعقد ہونے والے عالم (بی اے) اور فاضل (ایم اے) کا امتحان بھی کچھ اسی طرح بے راہ روی کے شکار ہیں ۔عالم و فاضل کا امتحان پانچ سالہ مدت پہ منحصر ہیں۔مگر اس پانچ سال میں امتحانی مراکز کے طور پر مدرسہ یا پھر کسی اردو High school،Middle school یا کسی College کا انتخاب عمل میں آتا ہے تو پھر بدعنوانی،بے اخلاقی،ظلم ،سرقہ بازی ،فریب کاری و دھوکہ دھڑی کا منظر عروج پر ہوتا ہے ۔حالانکہ قوم مسلم تعلیمی میدان میں سب سے پیچھے اور تنزلی کے شکار ہیں‌۔اس وقت مولانا مظہر الحق یونیورسٹی پٹنہ کے تحت صوبہ بہار بھر میں چلنے والا عالم و فاضل کا امتحان بدعنوانی و سرقہ بازی سے اس قدر مزین ہے کہ مجھے کبھی ایک دوسرے کا آپس میں لازم و ملزوم جیسا رشتہ نظر آنے لگتا ہے۔وہ امتحان کے انتظامیہ و نگراں جن کی تقرری آپ کی بہتری کے لیے عمل میں آتی ہوں_____آخر جب یہی سرقہ بازی پہ شرکائے امتحان کو مجبور کریں تو پھر یقیناً یہ شرمناک اور شریعتِ اسلامیہ سے متصادم عمل پر ابھارنے کی خبیث کوشش ہے‌۔سچ بتاؤں تو ! اس وقت مسلسل چار پانچ روز سے امتحان گاہ میں زبردستی سرقہ بازی بر مجبور کرنے کے لیے جس لٹیری ٹیم سے‌میری ملاقات ہو رہی ہے وہ جسم و جاں کو یکسر ماؤف ہی کر دینے والا ہوتا ہے کہ ____ایسا کلمہ گو انسان جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی آبادی سے تعلق رکھتا ہے آخر وہ کیوں کر کھلے عام اس طرح نیچ حرکتوں کا ارتکاب کر سکتا ہے؟ کئی ایک دفعہ تو میری اس ڈکیت قوم سے جھڑپ بھی ہوئی کہ آخر آپ اس طرح کا کام کیوں کر رہے ہیں؟ مگر اس وقت ان کی طرف سے جو خوشنما اور من موہنی جواب پیش کیا جاتا ہے اس کی سادگی بر مجھ جیسے طالب علموں کو سر پیٹ لینے کا دل کرتا ہے۔جی ! اگر آپ پانچ سو کے نوٹ سے اگر میری ضیافت نہیں کریں گے تو ہم آپ کو ایک الگ کمرہ میں بیٹھا دیں گے اور خوب سختیاں کریں گے ۔اور تو اور۔۔۔۔۔۔اس جواب میں مزید بناوٹی کمک فراہم کرنے کے لیے اس بات کا بھی کھلے دل سے یہ اعتراف کیا کرتے ہیں کہ آپ اس امتحان میں ناکام ہو جائیں گے اس لیے آپ کو ایک سسٹم اور نظام کے تحت چلنا پڑے گا۔ہائے افسوس !!! اس قوم پر جو امتحان گاہ میں شرکائے امتحان سے پیسے اینٹھ کر اپنے لیےBank balance بنانے کا سنہرا ذریعہ آمدنی ڈھونڈ لیتی ہو۔۔۔یہ بھی تو دیکھیں کہ یہ بدنصیب لوگ ان طلبا کی زندگی سے بھی کھلواڑ کرنے میں ایک قدم تک پیچھے نہیں ہٹاتے ہیں۔ہوتا یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی اس ڈائری کی روشنی میں،جس میں پانچ سو کے نوٹ ادا کرنے اور نہ کرنے والوں کے رول نمبر درج کیے ہوتے ہیں۔۔۔طلبا کی قسمت کا فیصلہ کر ڈالتے ہیں۔ پیسہ نہ دینے والے افراد کی کوئی ایک دو کاپی اس طرح غائب کر دیتے ہیں کہ پھر رزلٹ برآمد ہونے‌ پر وہ Pending یا Fail کے ژمرے میں آ جاتے ہیں۔
      اس وقت (راقم الحروف) میں جس سینٹر پر میں امتحان دے رہا ہوں وہاں میری ایسے کئی افراد سے ملاقات ہوئی جو سرقہ بازی سے اجتناب کرنے کے ساتھ ساتھ روپیہ نہ دینے کا بھی حطمی طور پر ارادہ رکھتے ہیں ۔ انھیں یقین ہے کہ ہم ناکام نہیں ہو سکتے ہیں۔ہاں اگر انھیں کسی چیز سے ڈر لگتا ہے تو وہ کاپی غائب کر دینے سے ڈر کھاتے ہیں۔ہو سکتا ہے آپ یہ سوچیں کہ آخر یہ لوگ کاپی کیوں غائب کریں گے؟ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ کاپی سے گھٹیا حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں اور میں اس کا آج سے دو سال قبل شکار بھی ہو چکا ہوں۔بہت سے ایسے افراد جو سرقہ بازی تو نہیں کرتے ہیں ،پر وہ پانچ سو کے‌نوٹ سے ان لٹیروں کی محض اس لیے ضیافت کر دیتے ہیں کہ کہیں یہ ہماری کاپی نہ غائب کر دیں۔ایک مزے کی بات تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے جاہل لٹیرے یہ کہ کر پیسہ بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں کہ " ہم اسی طرح سختی کریں گے جس طرح بڑے بڑے شہروں میں سینٹر پڑنے‌پر ہوتا ہے اور وہاں نگرانی کے لیے غیر مسلم افراد مقرر ہوتے ہیں۔۔۔" جی ہاں ! آپ اس جملہ کی روشنی میں یہ درست فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آج ہمارا اخلاقی معیار کس حد تک بگڑ چکا ہے؟ کیا وہ غیر مسلم ہم سے اچھے نہیں ہیں جو سرقہ بازی کے نام پر پانچ سو کے نوٹوں سے اپنی جیب گرم نہیں کرتے ہیں؟ جی ہاں ! وہ لوگ اچھے نہیں بلکہ بہت اچھے ہیں ۔آج اس معاملے میں وہ طرہ امتیاز جو ہمارا ہونا چاہیے تھا وہ کسی غیر کے یہاں نظر تو آ رہا ہے پر ہمارے یہاں نہیں۔۔۔یقینا اس وقت ملت اسلامیہ کے باوثوق اور سنجیدہ افراد کے ساتھ ساتھ نظام تعلیم سے منسلک تمام افراد کی یہ مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس خبیث عمل کے خلاف Action لیں اور معاشرے سے پانچ سو کے نوٹ لے کر سرقہ بازی پر ابھارنے کے خلاف جلد از جلد نکیل کسنے کے لیے مناسب عملی اقدام کریں۔