Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 16, 2020

أف یہ زعفرانی تہذیب

از /فتح محمد ندوی /صداٸے وقت۔
=============================
مارے ملک میں ایک وہ وقت تھا کہ ہم اپنے مذہبی تشخص، ایمان اور عقیدہ کے تحفظ پر کسی قسم کا کوئی کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں تھے، غرض ہمیں اپنے عقیدہ کا خیال اپنی جان سے زیادہ عزیز اور محترم تھا اگر کسی مقام پر، یا کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں کوئی ثقافتی یا مذہبی پروگرام ایسا ہوتا کہ جہاں عقیدہ پر کوئی آنچ آۓ تو اس میں مسلمان کسی قسم کی شرکت کو نہ صرف غلط سمجھتا تھا بلکہ اس کے تئیں شجر ممنوعہ کی سی کراہیت اس کے ذہن و دماغ میں موجود تھی ،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوچ کمزور پڑتی گئی۔ اور لوگ یہ بھول گئے کہ مذہب اسلام نے انہیں ایمان اور عقیدہ کے تحفظات کے لیے کیا ضابطے اور کیا اصول بتائیں ہیں۔ کن چیزوں سے منع کیا ہے اور وہ کیاحدود ہیں جن کو پھلانگ کر اور جن کو توڑ کر آدمی کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ میں یہ بات ہندوستان کے حال اور مستقبل کو سامنے رکھ کر لکھ رہا ہوں۔ رہا ماضی اس کو آپ نے خوب اچھی طرح دیکھا ہے۔بدلتے ہوئے ہندوستان میں زندگی کے تمام شعبوں میں منواسمرتی رنگ تیزی سے غالب آتا جارہا ہے۔
یقیناًاس صورت حال میں اقلیتوں کے سامنے کئی بڑے چیلنج ہیں،بلکہ خطرات ہیں کیونکہ جو قومیں اقلیت میں ہوتی ہیں،مزید ان کے پاس اگر کوئی حمایت یا سیاسی طاقت بھی نہ ہو تو اس صورت میں ان کی تہذیب اور کلچر پر بر سر اقتدار قوم کی تہذیب کا سکہ غالب آجاتا ہے۔اور اپنا تشخص بچانا مشکل ہوجا تا ہے۔ اس حقیقت کی طرف عظیم مورخ ابنِ خلدون نے بھی واضح اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتاہے مفتوح قوم فاتح قوموں کے تمدن خوشی سے قبول کر لیتی ہے۔ اس کا سبب وہ خود لکھتے ہیں کہ انسان فاتح قوم کے اعتقادات کا خیال دل میں رکھتا ہے۔ اور مفتوح قوم نہ صرف جسمانی غلامی قبول کرتی ہے بلکہ ان کے ذہن بھی غلام بن جاتے ہیں۔ کیونکہ مفتوح کی نگاہ میں فاتح کی عظمت سما جاتی ہے۔یا وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ فاتح میں کوئی غضب کا کمال ہے۔ جس کی وجہ سے وہ حکومت کا مالک بن بیٹھا اور یہ طبعی غلبہ کا تقاضہ نہیں۔ پھر یہ یا وہ بات اس کے دل میں گھر کرجاتی ہے۔ تو وہ اس کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔اس کی ہرادا کو دل سے چاہنے لگتا ہے۔ اس کی ہر بات کا بصد شوق گرویدہ ہوجاتا ہے۔ اور اس کی مشابہت اختیار کر نے لگ جاتا ہے۔ مفتوح کے اس فعل کو اقتداء کہا جاتا ہے۔
یا مفتوح اس غلطی کا شکار ہو جاتا ہےکہ فاتح کا غلبہ عصبیت و قوت کارہینِ منت نہیں۔ بلکہ اس کی عادتوں اور خصلتوں کا رہینِ منت ہے اس لیے اسے اس کی عادتیں اچھی اور پیاری معلوم ہوتی ہیں۔ اور اپنی عادتیں بھی اس کی طرح بنانے کی کوشش کر تا ہے۔ یہ علت مآل کے اعتبار سے قریب قریب پہلی علت کے ہے۔اس لیے تم دیکھو گے کہ مفتوح فاتح کے ہر فعل کی نقل کرتاہے۔ کھانے پینے میں۔ پہنے اوڑھنے میں۔ رہنے سہنے میں۔ سواریاں رکھنے میں۔ اسلحہ کی شکل و صورت میں بلکہ اس کی ہر ادا میں اس کی مشابہت قبول کر لیتا ہے“۔(ص /۲۶۴ /مقدمہ ابن خلدون)
ان تاریخی حقائق کے پیش نظرہمیں اب غور کرنا ہے کہ ہندو تہذیب کتنی تیزی اور قوت کے ساتھ یہاں کے ماحول پر اثر انداز ہورہی ہے۔یونیورسٹیز، کالجز ،اسکولز سے لیکر اسپتال اور آفس تک پوری طرح اس زعفرانی تہذیب کی زد میں ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں خود اور اپنی نئی نسل کے تحفظات کو کیسے یقینی بنانا ہے۔کیوں کہ اس زعفرانی ماحول اور رنگ کی کراہیت دلوں سے نکلتی جا رہی ہے بلکہ مشترکہ تہذیب کے نام پر زعفرانی تہذیب کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اور ساتھ ہی نئی نسل کے ذہنوں سے یہ تصور ختم کیا جارہا ہے کہ تہذیبی انفرادیت سماجی زندگی میں کو ئی اہمیت نہیں رکھتی ۔اب کس طرح اس ماحول سے بچنا ہے۔اس پر غور کیے بغیر ہم اگر آگے بڑھیں گے تو اسکا نقصان اتنا ہوگا کہ اس کی تلافی ناممکن ہوجاۓ گی۔ کلام اقبال کے مشہور شارح ڈاکٹر یوسف حسین خان درج ذیل شعر کی تشریح میں لکھتے ہیں:اس میں شبہ نہیں کہ انسان کا جس زمین سے تعلق ہوتا ہے اس سے وہ مانوس ہوجاتا ہے۔وہاں کی ہر چیز اسے بھلی معلوم ہونے لگتی ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ تو ہر گز نہیں کہ انسانی روح خاک کی پستیوں میں اپنے آپ کواس طرح سے آلودہ کر ے کہ اس کی قوت پرواز جاتی رہے۔ہندی ایرانی اور تورانی کے اعتبار سے بالاتر ملت اسلامی اور خودانسانیت کی معنوی ہستی ہے۔اقبال نے کہا ہے:
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
عقیدے کی پختگی اور استحکام پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم طرز اور فیصلہ آنے والی نسلوں کے لیے حجت بھی ہے۔پیغام بھی اور حکم بھی۔”چند روساۓ قریش نے آپ سے کہا اے !محمد صلی اللہ علیہ وسلم آؤ ہم تم صلح کرلیں ایک سال تک آپ ہمارے معبودوں کی پرستش کیا کریں۔ پھر دوسرے سال ہم آپ کے معبو د کوپوجیں ۔اس طرح دونوں فریق کو ہر ایک کے دین سے کچھ نہ کچھ حصہ مل جا ۓ گا۔آپ نے فرمایا خدا کی پناہ کہ میں اس کے ساتھ ایک لمحے کے لیے بھی کسی کو شریک ٹھراؤں ۔کہنے لگے اچھا تم ہمارے بعض معبودوں کو مان لو ۔ ان کی مذمت نہ کروہم تمہاری تصدیق کریں گے اور تمہارے معبود کو پوجیں گے۔ اس پر سورہ کافرون نازل ہوئی اور آپ نے ان کے مجمع میں پڑ ھ کر سنائی جس کا خلا صہ مشرکین کے طورو طریق سے کلی بیزاری کا اظہار اور انقطاع تعلقات کا اعلان کرنا ہے۔بھلا انبیاء علیھم السلام جن کا پہلا کام شرک کی جڑے کاٹنا ہے۔ ایسی ناپاک اور گندی صلح پر کب راضی ہو سکتے ہیں؛؛۔بہر حال اس گفتگوۓ مصالحت کو ختم کرنے کے لیے یہ سورت اتاری گئی“۔