Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, February 4, 2020

جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ میں فائرنگ سے عیدگاہ دیوبند میں انتظامیہ الرٹ۔

دیوبند۔۔۔اتر پردیش۔/صداٸے وقت/ ۔ رپورٹ۔دانیال خان۔ بشکریہ یو این اے نیوز/ 4فروری 2020))۔
==============================
دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی اور شاہین باغ میں ہوئے فائرنگ کے واقعہ کے بعد اب انتظامیہ دیوبند میں مستعد ہوگیاہے ایس پی دیہات ودیا ساگر مشرا کی قیادت میں پولیس نے سی اے اے کے خلاف عیدگاہ میدان میں جاری خواتین کے غیر معینہ دھرنے کے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے خواتین کی حفاظت کے مد نظر دھرنا گاہ کے نزدیک آٹھ پوائنٹکی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں اپنے قبضہ میں لے لیا۔
ایس ایس پی دنیش کمار پربھو کی ہدایت پر ایس پی دیہات ودیا ساگر مشرا نے مقامی پولیس افسران کے ساتھ دھرنا گاہ کی حفاظت کو لیکر میٹنگ بھی کی،بعد ازاں دھرنا گاہ کے چاروں طرف مختلف مقامات پر آٹھ پوائنٹ کی نشاندہی کی،کو ایس پی دیہات ودیا ساگر مشرا  نے بتایا کہ متحدہ خواتین کمیٹی کے والنٹیر کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکار بھی حفاظتی نکتہ نظر سے ان پوائنٹ پر تعینات رہیں گے،ودیا ساگر مشرا کے مطابق سبھی پوائنٹس پر ایک ایک ایس آئی اور خواتین پولیس اہلکار موجود رہیں گی۔وہیں جامعیہ ملیہ اسلامیہ اور پھر شاہین باغ میں شدت پسندوں کے ذریعہ فائرنگ کرنے اور دیوبند کے عید گاہ میدان کو پولیس کے ذریعہ قبضہ میں لینے کے ساتھ ہی دھرنے پر بیٹھی خواتین پر مقدمات قائم کرنے کے پولیس کے منفی رویہ کی اطلاعات سے بھی خواتین کے جوش و جزبہ میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی ہے اور وہ دو گنے جوش کے ساتھ دھرنا گاہ پہنچ کر متنازع قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتمام شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت میں دیوبند کے عیدگاہ میدان میں خواتین کا بے معیادی مدت کا دھرنا نو ویں روز بھی بدستورجاری رہا۔خواتین پوری ہمت و حوصلہ کے ساتھ میدان عمل میں جدو جہد کر رہی ہیں 
اور ایک آواز میں کہ رہی ہیں کہ جب تک سی اے اے واپس نہیں ہوگا تب تک احتجاج مظاہرہ جاری رہے گا۔آج مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے سنجیدہ،فرزانہ،قدسیہ،زبیدہ،صاحبہ اور افشاں  نے کہا کہ ملک کی تاریخ گواہ ہے جب جب عوام کو حکومت سے تکلیف پہنچی ہے تب تب وہ سڑکوں پر اتری ہے،ہم اس سماج سے ہیں جہاں بیٹیوں کو جنت کی پونجی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور یہی بیٹیاں جب سڑک پر اتری ہیں تو اسکا مطلب صاف ہے کہ معاملہ کوئی چھوٹا نہیں ہے،سے اے اے اور این پی آر، این آر سی کی پہلی سیڑھی ہے جس کو آپ وزارت داخلہ کی سائٹ پر جاکر دیکھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری تحریک کو ختم کرانے کے لئے پولیس اور انتظامیہ ان حربوں کو بھی آزما سکتی ہے جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن ہم ذہنی طور پر اس کے لئے بھی تیار ہیں۔شبنم شیبہ،عمرانہ،نشاء،حفظہ اور فروزہ خانم نے کہا کہ حکومت اپنے کام سے بھٹک گئی ہے،کیونکہ انگریزوں نے جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہوکر ہمارے ملک پر حکومت کی ان ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بی جے پی حکومت مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرتے ہوئے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کی آئڈیا لوجی صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے ان 80فیصد عوام کے خلاف ہے جو پسماندہ اور پچھڑے ہوئے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔
خورشید،شمیمہ،شمشیدہ،انیس جہاں اور زینب نے کہا کہ طلاق ثلاثہ،نوٹ بندی،آرٹیکل 370،بابری مسجد اور دیگر مسائل سے چھیڑ چھاڑ کی گئی اسکے باوجود ملک کے عوام نے ان باتوں کو نظر انداز کیا،جس سے بی جے پی حکومت یہ سمجھ بیٹھی کے اس نے عوام کو گمراہ کر دیا ہے۔عوام کی خاموشی کو کو بی جے پی حکومت نے ان کی کمزوری سمجھا اور دستور سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے عوام کو حاصل حقوق سلب کرنے کی ناکام کوشش کر دی ہے۔ جو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے حکومت کو یاد رکھنا چاہئے کہ عوام جب جب سڑکوں پر اتری ہے تب تب ملک میں انقلاب آیا ہے۔ 
حاجرہ، عائشہ،اسماء اور  رفعت نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون،این پی آر اور مستقبل میں آنے والے این آر سی جیسے سیاہ قانون کے ذریعہ دستور پر حملہ کو دیکھتے ہوئے عوام سراپا احتجاج بن گئے ہیں اور یہ احتجاج طول پکڑتا ہوا ملک کے چپہ چپہ تک پہنچ گیا ہے،ملک کے عوام نے انگریزوں کو پر امن احتجاج کے ذریعہ ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تھا اب دوسری مرتبہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور تب تک دم نہیں لیں گے جب تک دستور کے مطابق سماج کے ہر طبقہ کو آزادی نہیں مل جاتی۔ زینب،سارہ،گلناز اور مریم نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو نشانہ پر لیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاقت کے ذریعہ عوام کو حاصل حقوق سلب کر لیں گے تو یہ ان کا وہم ہے وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتے،حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر سیاہ قوانین کو واپس لیکر ملک کی گرتی ہوئی معیشت اور بے روز گاری کو دور کرتے ہوئے عوام کو چین و سکون سے زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرے۔ 
عمرانہ،رضیہ،روبینہ،صفوانہ اور شاہدہ نے کہا کہ فرقہ پرست اب کھل کر مسلم مخالف رویہ اپناتے ہوئے شہریت ترمیمی ایکٹ کو ہندو مسلم ایجنڈہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔یہ سیاہ قوانین اور انکے نفاذ کا صرف ایک ہی مقصد ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کو الگ تھلگ کر کے اتنا بے بس کر دیا جائے کہ وہ اپنے دستوری حقوق کے حصول کے بجائے احساس کمتری میں مبتلا ہوکر اکثریت کی غلامی پر مجبور ہو جائیں لیکن ایسا ہونا نا مممکن ہے کیوں کہ ملک کی سیکولر عوام  بی جے پی کی کوشش کے باوجود اپنے حقوق کے حصول میں یا ان قوانین کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔