Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, February 25, 2020

ٹرمپ کی کٸی جگہو ں پر مخالفت۔۔۔۔واپس جاٶ کے نعرے۔

نئی دہلی: /صداٸے وقت / ذراٸع /٢٥ فروری ٢٠٢٠۔
==============================
امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ ان دنوں ہندوستان کے دورے پر ہیں۔اس موقع پر جہاں ہندوستانی حکومت کی جانب سے ان کی بھرپور پزیرائی ہورہی ہے اور ان کے استقبال اور مہمان نوازی پر عوامی خزانے کا منہ کھول دیا گیا ہے، وہیں عوامی سطح پر ان کی زبردست مخالفت بھی ہورہی ہے۔دہلی سمیت ملک کے مختلف خطوں میں عوام نے ٹرمپ کے خلاف مظاہرہ کیا اور ’واپس جاؤ‘ کا نعرہ لگایا۔ یہ مظاہرے دہلی، مدھیہ پردیش، تلنگانہ، مغربی بنگال،آسام اور بہار کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی ہوئے۔دہلی میں آل انڈیا پیس سالڈیرٹي آرگنائزیشن کے ذریعہ منعقد ہونے والے مظاہرے میں بائیں بازو کے قومی لیڈروں اورمزدور تنظیموں کے لیڈروں کے علاوہ نوجوان  طلبہ اور کارکنوں نے شرکت کی۔اس موقع پرسی پی آئی کے جنرل سیکریٹری ڈی  راجہ، سی پی ایم پولٹ بیورو نيلوتپل باسو اور دنیش وارشے وغیرہ نے مظاہرہین سے خطاب کیا۔ ڈی راجہ نے کہا کہ ہندوستان کو آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنا چاہئے۔
 اسے اس دباؤ کے آگے نہیں جھکنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایران، افغانستان اور فلسطین سمیت ہر جگہ ہندوستان کے مفادات کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ اس نے ہمارے کاروبار کو بھی نقصان پہنچایا ہے،اسلئے ہمیں بھی امریکہ کی مخالفت کرنی چاہئے۔ اس موقع پر مظاہرین نے ’ٹرمپ واپس جاؤ‘کے  نعرے بھی لگائے۔ٹرمپ کے دورے کے پیش نظرسی پی ایم کی مرکزی قیادت نے مودی حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ امریکی صدر کے دباؤ میں نہ آئے اور اس کے گھٹنے نہ ٹیکے۔ سی پی ایم نے کہا کہ اس  دورے سے  امریکہ ہندوستان کو اپنا  بازار بنانے کیلئے کام کر رہا ہے جس کی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے۔ سی پی آئی (ایم) پولٹ بیورو نے    پیر کو یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کا واحد مقصد ہندوستان کیلئے امریکہ کا بازار کھولنا ہے اور وہاں کے کارپوریٹس کو فائدہ پہنچاتے ہوئے  ٹرمپ کو دوبارہ جیتنے میں مدد کرنا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے اس ایجنڈے سے ہندوستانی کسانوں کو ڈیری اور ماہی گیری کی خدمات میں مصروف افراد کو نقصان پہنچے گا۔اسی طرح کرناٹک کے شہر میسور میں بھی بائیں محاذ  سے وابستہ سوشلسٹ یونیٹی سینٹرآف انڈیا(ایس یو سی آئی) نے امریکہ اور امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف احتجاج کیا۔ اس موقع پر کارکنوں نے دنود گیٹ سے جھانسی گیٹ تک مظاہرہ کیا اور امریکی صدر کا پتلا جلایا۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے ریاستی کمیٹی کے رکن رام پھل نے کہا کہ’’سامراجی لٹیروں کے سرغنہ امریکی صدر کو ہندوستان بلاکر مودی حکومت کئی طرح کے ایسے تجارتی سمجھوتے کررہی ہے جن سے ملک کے زرعی، پولٹری، ڈیری، طبی آلات اور دوائیوں سمیت مختلف صنعتوں کو نقصان ہوگا،اسلئے ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘انہوں نے  الزام عائد کیا کہ امریکہ گزشتہ تین برسوں سے ہندوستان کے بازار کو اپنے زرعی، ڈیری اورپولیٹری پیداواروں، طبی آلات اور صنعتی سامانوں سے بازار کو بھر دینے کیلئے  ہماری حکومت پر دباؤ بنارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ افسوس ہی کا مقام ہے کہ ہماری حکومت کے امریکہ سے ہونے جارہے معاہدے کے تحت وہاں سے دودھ اور دودھ سے بنی چیزیں جیسے پنیر اور لسی وغیرہ کے علاوہ سیب،اخروٹ اور بادام جیسے پھل  وغیرہ کی بھی درآمد کی اجازت دی جائے گی۔

 اس کے علاوہ  درآمد فیس ۶۴؍ فیصد سے کم کرکے۱۰؍ فیصد تک کردیا جائے گا۔اسی  بیچ پولٹری پروڈکٹس  کے درآمدات  پر ٹیکس میں کمی کرنے کے خدشات کے درمیان پولٹری فیڈریشن آف انڈیا  نے وزیراعظم مودی سے پولٹری صنعت کو بچانیکیلئے اپیل کی۔ فیڈریشن کے صدر رمیش چندر کھتری اور سیکریٹری رنپال سنگھ نے وزیراعظم کے نام مختلف خطوط لکھیجو مختلف ڈسٹرکٹ ڈپٹی کمشنروں کے ذریعہ سے ان تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ ان خطوط میں پولٹری صنعت کو بچانے کی اپیل کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ یہ صنعت  دس  ہزار کروڑ روپے کا ہے جس سے دو کروڑ افراد کا روزگار بھی جڑا ہوا ہے،اس لئے اسے بچایا جانا بہت ضروری ہے۔خط میں لکھا گیا ہے کہ اگر امریکی’لیگ پیس‘ پر ڈیوٹی گھٹائی گئی تو ہندوستان کی پولٹری تباہ ہوجائیگی۔خط میں وزیراعظم کو کسانوں کی آمدنی۲۰۲۲ء تک دُگنی کرنے کے وعدے کی یاد دہانی کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ کسانوں کا بھروسہ نہ توڑیں کیونکہ کسان نے انہیں اسلئے ووٹ نہیں دیا کہ پریشان ہوکر انہیں خودکشی کا راستہ اختیار کرنا پڑے۔ ان مظاہروں کے علاوہ بھوپال کے گیس سانحہ کے متاثرین نے بھی احتجاج کیا اور مودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ خاطی امریکیوں سے ہرجانہ  وصول کرے۔