Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, February 10, 2020

شاہین باغ خاتون مظاہرین کے بارے میں اب غلط بات نہیں کہی جائے گی: خاتون مظاہرین۔

شاہین باغ خاتون مظاہرین نے کہا کہ دہلی میں جب سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوا تھا اس وقت تک سے اب تک اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کر کے ہمیں ذہنی طور پر (مینٹل ٹارچر) پریشان کیا گیا۔

نئی دہلی۔ /صداٸے وقت /ذراٸع /١٠ فروری ٢٠٢٠۔
=============================
قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر  کے خلاف شاہین باغ میں خاتون مظاہرین نے دہلی میں ہونے والے الیکشن کے ایام کو شاہین باغ کے تعلق سے تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب الیکشن ہو چکا ہے اور امید ہے کہ اب شاہین باغ خاتون مظاہرین کے بارے میں غلط بات نہیں کہی جاۓ گی۔
شاہین باغ خاتون مظاہرین نے کہا کہ دہلی میں جب سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوا تھا اس وقت تک سے اب تک اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کر کے ہمیں ذہنی طور پر (مینٹل ٹارچر) پریشان کیا گیا۔ کبھی ہمیں 500روپے لیکر بیٹھنی والی بتایا گیا تو کبھی بریانی کھانے والی بتایا گیا۔کبھی گولی چلا کر ہمیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی گئی، تو کبھی کسی کو بھیج کر ہمارے خلاف سازش کی گئی۔ کبھی جینے کی آزادی کے نعرے کو جناح کی آزادی کے نعرہ کا الزام لگاکر ہمیں  غدار بتایاگیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگ سب کچھ سہتے رہے اور پرامن طریقے سے مظاہرہ کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگ سمجھ رہی تھیں کہ یہ سب دہلی میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔ اب جب کہ الیکشن ختم ہوگیا ہے اور حق رائے دہی کا عمل پورا ہوگیا ہے اب امید ہے کہ ہمارے احتجاج کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کہی جائے گی۔ بلکہ ہماری آواز سنی جائے گی۔
انہوں نے کہاکہ 56 ویں دن کے اس دھرنے میں ہمیں تمام لوگوں کا ساتھ ملا ہے اور سب کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ یہ دھرنا دراصل صلح کل اور کل مذاہب کے احترام کی علامت بھی رہا ہے اور تمام طبقوں نے یہاں آکر قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ہمارے موقف کی تائید کی ہے اور اس قانون کو مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے لئے خطرناک بتایا ہے۔ خاص کر دلتوں، قبائلیوں، بنجاروں اور کمزور طبقوں کے لئے جن کے پاس نہ گھر ہے نہ ہی زمین اور نہ ہی کوئی دستاویزات۔ انہوں نے کہا کہ یہ دھرنا ہر طرح کے نشانے پر ہونے کے باوجود ہر روز کچھ نیا کرتا گیا اور تمام طبقوں کو جوڑنے میں کامیاب رہا ہے۔ خواتین مظاہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت ان کی آواز کو ضرور سنے گی اور اس قانون میں جو تفریق ہے اسے ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔