Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 27, 2020

ہم تو اپنے آشیانے میں بہت محفوظ ہیں ! (ایک لمحہء فکریہ)

از قلم /عبید اللہ یاسر قاسمی/صداٸے وقت ۔
==============================
اس وقت ہمارے ملک کے جو ناگفتہ بہ اور تشویش ناک حالات ہیں ان پر دل دھڑک رہا ہے ,زبان لڑکھڑا رہی ہے,قلم کی قوت جواب دے رہی ہے آنکھیں آنسو بہارہی ہیں ایسے دلدوز حالات،ایسے کربناک مناظر،ایسا تشدد، روز بہ روز طبیعت کی آزردگی بڑھتی جارہی ہے،ہر روز ایک نیا سانحہ جنم لے رہا ہے، ہر آنے والا آفتاب ایک نئی آفت لے کر طلوع ہوریا ہے،آر،ایس،ایس اور بی جے پی تعصب و عناد کا پورے ملک میں پھیلا چکے ہیں،سیکولرازم کی دھجیاں آڑا رہی ہیں دو تین دن قبل جو المناک مناظر دکھائی دے رہے تھے،کھلے عام فسادات ہورہے تھے،لوگ دہل رہے تھے، مکان جل رہے تھے،دکانیں لٹ رہی تھیں فرقہ پرست آر ایس ایس کے غنڈے دہشت گردی کا ننگا ناچ رچا رہے تھے، مساجد بے آسراتھے سنگھی ملعون مسجد کے مناروں پر چڑھ کر بھگوا جھنڈا لہراکر مذہبی منافرت کا ثبوت دے رہے تھے،مدارس آتش زدہ دکھائی دے رہے تھے، مقابر بھگوا پسندوں کے ہاتھوں مسمار ہورہے تھے، قرآن مقدس کے نسخے بکھرے ہوئے تھے، چیخ و پکار آہ و بکاء شوروغل آنسو گیس اور گولیوں کی آوازوں نے ایک عجیب سی کیفیت پیدا کردی تھی، 24 فروری کی رات غم زدوں کے لیے ایک سسکتی رات، اور 25 فروری کی صبح پریشان حالوں کے لیے ایک بھیانک صبح تھی،چاروں طرف قیامت خیز مناظر تھے، میں غزہ و فلسطین کی بات نہیں کررہا ہوں، میں شام و سیریا کے مسئلہ سے نہیں الجھ رہا ہوں، نہ ہی میرے اس آہ و بکا کا تعلق برما سے ہے، میں تو خوابوں کے شہر، علوم کے مرکز، ادب اور ادباء کے گہوارہ دار الحکومت دہلی کے دہلنے کی بات کررہا ہوں
جی ہاں!وہی دہلی جہاں لال قلعہ اور قطب مینار ہے، جی ہاں!وہی راجدھانی جہاں عظیم جامع مسجد ہے، جی ہاں! وہی دار الحکومت جہاں حکمرانوں کی مسندیں ہیں
وہیں پر آنکھیں مسلسل انسانی خون کا تماشا دیکھ رہی ہیں، 25 سے زائد افراد اس دہشت گردی کے شکار ہوکر موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں دو سو سے زائد افراد سخت زخمی ہوچکے ہیں، دور دور تک آگ لگی ہوئی ہے، پایہ تخت دہلی لہو لہان ہے، سڑکوں پر پتھر بازی کے آثار ہیں، پولس کی بربریت ویڈیوز کی شکل میں وائرل ہورہی ہے، زعفرانی غنڈے گھروں میں گھس کر مار پیٹ کررہے ہیں،زر خرید بدمعاش آر ایس ایس کے افراد دہشت پھیلارہے ہیں
لیکن ہم کیا سمجھتے ہیں؟ کہاں جی رہے ہیں؟ کیا سوچ رہے ہیں؟کس خواب غفلت کے شکار ہیں؟ کیا اب بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ ہم تو اپنے آشیانے میں بہت محفوظ ہیں ؟بات فلسطین کے مسلمانوں کی تھی جب ہمارا جواب تھا کہ ہم اپنے آشیانے میں بہت محفوظ ہیں؛لہذا فکر کی کوئی بات نہیں، بات افغانستان برما اور شام کی تھی اس وقت بھی ہمارا یہی جواب یہی تھا کہ ہم تو ٹھیک ہیں؛لہذا افسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے،لیکن یہ دلدوز اور روح فرسا مناظر تو ہمارے راجدھانی دہلی کے ہیں کیا یہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ کیا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا تھا: مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى؟کیا ہم نہیں دیکھ رہے ہیں آگ بھڑک اٹھی ہے؟ کیا شعلہ زنی نظر نہیں آرہی ہے؟کیا دکھائی نہیں دیتا کہ دار الحکومت دہلی کے لوگ لٹ چکے ہیں؟مسجد پر بھگوا جھنڈا لہرایا گیا ہے! مدرسہ جل چکا ہے! مقبرہ توڑا جاچکا ہے! مکانات تباہ ہوچکے ہیں! دکانیں خاکستر ہوچکی ہیں! کیا یہ بھی خواب غفلت سے بیدار کرنے کیلئے کافی نہیں ہے؟کیا اب بھی متحد ہونے کا وقت نہیں آیا؟ کیا اب بھی خدا کو منانے کی فکر نہیں پیدا ہوئی؟ کیا ہم اپنے مکانات تباہ ہونےکا انتظار کررہے ہیں؟ کیا اپنی مساجد، مدارس مقفل ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں؟کیا ہماری آنکھیں ماؤں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم دیکھ سکتی ہیں؟ائے مسلم نوجوانو! آخر کب اٹھوگے؟
نہیں نا! ہرگز نہیں تو یہ غفلت چہ معنی دارد؟ یہ بے التفاتی کس وجہ سے؟ یہ خدا سے بے رغبتی کیوں؟ یہ قرآن سے دوری کیوں؟حفاظت خود اختیاری فکر کیوں نہیں؟ مجھے ان ظالموں سے گلہ ہے مجھے ان سفاکوں سے شکوہ ہے، ان درندوں سے نفرت ہے لیکن میں اپنی قوم سے بھی نالاں ہوں، میں قوم مسلم کی اس غفلت کا کیا کروں؟ کیا یہ دین سے دوری ہماری غلطی نہیں ہے؟
ہمدرد ہیں تو آگ بجھانے کی سوچیے
جلتے ہوئے مکان کا منظر نہ دیکھیے
میں قائدین کی خموشی کے ٹوٹنے کا منتظر ہوں،میں قوم مسلم کے جوش و جذبہ کا منتظر ہوں، اگر اب خاموش رہے تو
بعید نہیں ہے کہ جو کل دہلی میں ہوا
کل آپ کے شہر آپ کے علاقے اور محلے میں بھی یہ حال ہو
ابھی بھی وقت ہے اب بھی حالات کا دھارا موڑا جاسکتا ہے اب بھی بہار لوٹ کر آسکتی ہے بشرطیکہ کچھ کرنے کا جذبہ لیکر اٹھیں یاد رکھیں ان حالات سے عبرت حاصل کریں، مظلوموں کی مدد کریں، انکی تکلیف کو سمجھیں اور ملک کے ان ناگفتہ بہ اور تشویش ناک حالات کے پیش نظر دعاؤں کے اہتمام کیساتھ اپنے اعمال و کردار کی اصلاح کی طرف توجہ بہت ضروری ہے،جسمانی و روحانی طور پر اپنے آپ کو تیار کرنا، خدا کی طرف رجوع و انابت اور اپنے اندر یقین محکم اور عمل پیہم کا جذبہ پیدا کرنا یہ اس وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
حوادث سے دلوں کے ولولے کم نہیں ہوتے
وہ انسان ہی نہیں جن کو غم نہیں ہوتے