Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, March 6, 2020

ایس ڈی پی آئی مرکزی کمیٹی وفد کا دہلی فساد متاثرہ علاقوں کا دورہ اور مرکزی وریاستی حکومت سے 10اہم مطالبات

نئی دہلی(صداٸے وقت /ذراٸع /6مارچ2020)۔
==============================
سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آ ف انڈیا (ایس ڈی پی آئی)کی مرکزی کمیٹی کی ایک وفدنے پارٹی قومی نائب صدر دہلان باقوی کی قیادت میں پچھلے دو دن سے دہلی کے فساد متاثرہ علاقے جعفر آباد،مصطفی آباد، کروال نگر، شیو وہاروغیرہ کا دورہ کرکے متاثرہ خاندان سے ملاقات کرکے انہیں دلاسا دیا۔ وفد میں ایس ڈی پی آئی قومی جنرل سکریٹری عبدالمجید، قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی، قومی ورکنگ کمیٹی اراکین ڈاکٹر عواد شریف ، عبدالستار شریک رہے ۔ وفد نے مذکورہ علاقوں کے متاثرہ مکانات، اداروں ، مساجد، دکانوں اورمدرسوں کا دورہ کیا اور متاثرین سے ملاقات کرکے فسادات سے متعلق معلومات حاصل کیا۔ جس کے بعد ایس ڈی پی آئی مرکزی کمیٹی نے جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ فساد متاثرہ علاقوں کو دیکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ فسادات منصوبہ بند ہےں۔ شمال مشرقی دہلی میں سی اے اے، این پی آر ، این آر سی قانون کے خلاف جعفر آباد میں مسلسل پرامن احتجاج جاری تھا۔کپل مشرا کی قیادت میں بی جے پی کے اراکین نے اس احتجاج کی مخالفت کی اور سی اے اے حمایتی احتجاج کے نام پر گزشتہ 23 فروری 2020کوتشدد کا آغاز کیا گیا تھا۔ 
حکومت کے مطابق تین دن تک جاری رہے اس تشدد میں 53سے زیادہ افراد ہلاک اور 500سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں ، مساجد، مدرسہ اور اداروں پر حملہ کرکے انہیں نذر آتش کیا گیا ہے ۔جن علاقوں میں مسلمانوں کے مکانات ہیں ان علاقوں میں ہندؤں کے تمام مکانات محفوظ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فساد کا منصوبہ پچھلے دو تین مہینے قبل ہی تیار کرلیاگیا تھا ۔ متاثرین کے بیانات کے مطابق مقامی سنگھیوںسے ملکر باہر کے بلوائیوں نے منصوبہ بند حملہ کیا ہے ۔ تشدد میں ملوث ہجوم نے ہیلمٹ ، چاقو، سلاخیں اور پستول سمیت خطرناک ہتھیاروں سے لیس ہوکر منصوبہ بند حملہ کیا ہے ۔حکومت کے اعدادو شمار کے مطابق چار روزہ تشدد میں 53افراد ہلاک ہونے کے اطلاعات ہیں، لیکن علاقے کے لوگ ابھی بھی پولیس اور اسپتال کے مردہ خانے میں گمشدہ افراد کو تلاش کرتے نظر آرہے ہیں۔ مصطفی آباد ریلیف کیمپ میں تقریبا 250خاندانوں کو رکھا گیا ہے ۔یہ سب وشوا وہارعلاقے کے رہنے والے ہیں۔شیووہار کے پورے علاقے میں حملہ کیا گیا ہے ۔پورے علاقے میں منظم طریقے سے مسلمانوں کے گھر وں کو تباہ کیا گیا ہے۔متاثرہ علاقوں کا مشاہد ہ کرنے پر لگتا ہے کہ فسادات میں ملوث تمام غنڈے فسادات کیلئے ہی تربیت دیکر تیار کئے گئے ہیں۔ بلاشبہ ، حکومت اور انٹلی جنس ایجنسی کے علم میں آئے بغیر اس طرح کے فسادات ہو نہیں سکتے ہیں۔
اشتعال انگیز اور نفرت انگیز ت تقاریر کے ذریعے ان فسادات کیلئے ذمہ دار بی جے پی لیڈران کپل مشرا، انوراگ ٹھاکراور پرویش مشرا پر مقدمہ درج کرکے فوری گرفتار کیا جانا چاہئے تھا ۔تاہم، حکومت ان کی گرفتاری پر ابھی بھی خاموش ہے۔ متاثرین کے مطابق ان فسادات میں کچھ علاقوں میں پولیس کی مدد سے اور کچھ علاقوں میں پولیس ہی فسادات میں ملوث رہی ہے ۔ متاثرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس کی مدد کے بغیراس طرح کے حملے کئے جانے کے امکانا ت نہیں ہیں۔ پہلے تو ہمارے علاقے میں فسادی آئے لیکن ہم نے انہیں باہر نکال دیا ، بعد میں پولیس کی مدد سے فسادیوں نے لوگوں پر حملہ کرنا شروع کردیا ، پولیس آگ لگانے کے واقعات میں بھی ملوث تھی ، انہوں نے پٹرول بم بھی پھینکے اور دوکانوں پر بھی حملہ کیا ۔ لوگوں کو مارنے اور املاک لوٹنے میں دہلی پولیس فسادیوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور پولیس نے ہمارے ساتھ امتیازی سلوک برتا ۔ نیز شیو وہار میں زیر زمین نالے سے اب تک 11لاشیں ملی ہیں ، جن میں زیادہ تر مسلمانوں کی لاشیں ہیں ۔ ابھی بھی لا پتہ افراد کی لاشیں یہاں موجود ہونے کے شبہ پر یہاں تلاش جاری ہے ۔ متاثرین نے مزید بتا یا کہ ان سب کے باوجود ، پولیس نے فسادیوں پر معمولی لاٹھی چارج تک نہیں کیا ، ابھی بھی پولیس متاثرہ مسلمانوں کو ہی گرفتار کر رہی ہے ۔ فساد کے تعلق سے بات کرنے اور میڈیا کو انٹر ویو دینے والوں کو پولیس دھمکیا ں دے رہی ہے اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے پولیس ایک طرفہ کارروائی کررہی ہے ۔ فساد متاثرین سے بات چیت کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ کچھ علاقوں میں مقامی لوگوں نے فسادیوں کو بھگا کر لوگوں کو بچایا ہے اور کچھ علاقوں میں مقامی لوگ فسادیوں کے حملے کو خاموش تماشائی بنے دیکھ رہے تھے۔
فسادات میں بندوقوں کا عام استعمال ہو اہے۔ فسادات میں ہلاک ہونے والوں میں سے بہت سے افراد بندوق کی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ اسی طرح زخمیوں میں سے بہت سے افراد کو گولی لگی ہے ۔ اس سے پہلے شاہین باغ اور دہلی جامعہ یونیورسٹی کے احتجاجیوں پر بندوق کا استعمال کیا گیا تھا۔ لہذا پر تشدد ہجوم کے پاس بڑے پیمانے پر بندوقوں کا ہونا خطرناک ہے ۔ ایس ڈی پی آئی کی مرکزی کمیٹی اس کی تفصیلی تحقیقات کا کا مطالبہ کرتی ہے ۔ ایس ڈی پی آئی کی مرکزی کمیٹی مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے مندرجہ ذیل10مطالبات رکھتی ہے ۔ 1)۔ہیڈ کانسٹبل رتن لال کو جس طرح ایک کروڑ کا معاوضہ دیا گیا ہے اسی طرح دہلی فسادات میں مرنے والے دیگر مہلوکین کے لواحقین کو ایک کروڑ روپئے کا معاوضہ دیا جائے ۔ خاندان کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے اور زخمیوں کو 10لاکھ روپئے تک کا معاوضہ دیا جائے ۔ 2)۔جو گھروں سے محروم ہوئے ہیں ان کو ریاستی حکومت ہی مکانات تعمیر کرے اور جن کے گھروں کو نقصان پہنچا ہے اس کو حکومت ہی مرمت کرے۔نیز تباہ شدہ مدارس، مساجد اور دوکانوں کو حکومت ہی دوبارہ تعمیر کرکے دے۔ 3)۔فسادات کا باعث بننے والے نفرت انگیز تقاریر کرنے والے کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش مشراپر سخت دفعات کے تحت مقدمات درج کرکے انہیں گرفتار کیا جائے ۔ ان کو پولیس تحفظ فراہم کیا جانا تشویشنا ک بات ہے ۔ اسی طرح فسادات میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرکے ان پر کارروائی کیا جانا چاہئے ۔ 
فسادات کو روکنے میں ناکام پولیس اور فسادات میں بلوائیوں کا ساتھ دینے والے پولیس اہلکار پر سخت کارروائی کیا جانے چاہئے ۔ 4)۔فسادمتاثرہ علاقوںمیں مسلمانوں کی من مانی اور arbitrary گرفتاریوں کو فوری طور پر بند کیا جائے ،اب تک گرفتار کئے گئے تمام بے گناہ مسلمانوں کو فوری طور پر ضمانت پر رہا کیا جانا چاہئے ۔5)۔ فسادات سے متعلق انفرادی طور پر کئی ویڈیو فوٹیج جاری کیا جارہا ہے ، پولیس کو ان فوٹیج کی حفاظت کرکے مقدمہ میں اسے دستاویز کے طور پر استعمال کرنا چاہئے۔فسادات کے متعلق سی سی ٹی وی کے جو فوٹیج حاصل ہوئے ہیں اس کی جانچ کرکے مجرموں کو سزا دیا جانا چاہئے۔کچھ علاقوں میں پولیس کے ذریعے ہنگاموں کی ویڈیو سوشیل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ہیں، اس کی بھی جانچ اور تحقیق کرکے مجرموں کو سزا دیا جانا چاہئے ۔ 6)۔فسادات میں دوکانوں اور مکانوں میں ہوئے لوٹ مار میں جن لوگوں نے زیورات اور روپئے کھویا ہے اور بے سہار ا ہوگئے ہیں ان لوگوں کو بھی مناسب معاوضہ دیا جانا چاہئے۔7)۔ دہلی میں ہوئے فسادات میں ایک مخصوص کمیونٹی پر ہوئے حملے کو دیکھ کر دنیا بھر میں مذمت کیا جارہا ہے اور تبصرہ ہورہا ہے لیکن دہلی کے وزیر اعلی کجریوال یا وزیر اعظم نریندر مودی یا وزیر داخلہ امیت شاہ نے نہ ہی فوری طور پر متاثرہ مقامات کا دورہ کیا ہے اور نہ ہی متاثرین کو تسلی دی ہے ۔ 

جس سے مرکزی اور ریاستی حکومت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ظاہر ہوتا ہے ۔ ایس ڈی پی آئی مرکزی کمیٹی ریاستی وزیر اعلی اور وزیر داخلہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فساد متاثرین سے مل کر ان کے حالات جانیں۔ 8)۔فساد متاثرہ علاقوں میں مناسب ریلیف کیمپوں کا قیام، سیکورٹی کو مستحکم کرنے اور بے گھر ہوئے افراد کو ان کے اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کیلئے اقدامات کریں۔ مرکزی اور ریاستی حکومت کو چاہئے کہ عوام میں فساد کا جو خوف ہے اسے دور کرنے کے اقدامات کریں۔ سماجی مفاہمت کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اور فساد سے متاثرہ لوگوں میں امن اور سماجی ہم آہنگی پید اکرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں۔9)۔لاپتہ افراد کو لواحقین کی مدد سے تلاش کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ 10)۔ ان فسادات میں ایک پولیس افسر اور ایک انٹلی جنس افسر بھی مارے گئے ہیں ۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے جسم میں لگی تمام گولیاں پولیس کی گولیاں تھیں۔اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرکے مجرموں کو سزا ملنی چاہئے۔