Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 21, 2020

مودی حکومت کا جھوٹ آیا سامنے ۔۔سپریم کورٹ میں پیش حلف نامے میں کہا ۔۔۔”ضروری ہے ملک کے لٸیے این آر سی “

نٸی دہلی /صداٸے وقت /نماٸندہ /ذراٸع۔
==============================
 حکومت کی زبان اور اس کی سچاٸی کی قلعی اس وقت کھل گٸی جب سپریم کورٹ میں دٸیے گٸے ایک حلف نامے میں مرکز نے این آر سی کو ملک کے لٸے ضروری قرار دیا۔ابھی تک حکومت کے سر براہ وزیر اعظم نریندر مودی سے لیکر امت شاہ تک این آر سی کو لاگو کرنے کے حزب مخالف کے دعوں کو ہوا ہواٸی بتا رہے تھے ۔وزیر اعظم نے دہلی کے رام لیلا میدان میں اس کو لیکر حزب مخالف پر افواہ پھیلانے کا الزام عاٸد کیا تھا ۔انھوں نے کہا تھا کہ اندرون حکومت این آرسی کو لیکر کوٸی چرچا نہیں ہوٸی ہے۔
 لیکن شہریت قانون ترمیمی بل ٢٠١٩ کے خلاف سپریم کورٹ میں داٸر کٸی رٹ پیٹیشن کا جواب دیتے ہوٸے مرکزی حکومت نے کہا کہ ”کسی بھی خود مختار نیشن کے لٸیے این آر سی بے حد ضروری ہے “۔ان تمام عرضیوں پر سپریم کورٹ نے سرکار کو نوٹس جاری کرکے  جواب مانگا تھا۔ جس کے جواب میں وزارت داخلہ کے ڈاٸریکٹر بی سی جوشی نے 17 مارچ کو حکومت کی طرف سے ایک حلف نامہ پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ شہری اور غیر شہری کی پہچان کے لٸیے کسی بھی خود مختار ملک کے لٸیے شہریوں کا  قومی رجسٹر بنانا  بے حد ضروری ہے
 سپریم کورٹ میں داخل عرضیوں میں شہریت قانون 1955 کے سیکشن 14 اے کو بھی چیلنج کیا گیا تھا جو این آر سی کے لٸے قانونی جواز فراہم کرتا ہے اور آٸین کی اس شق سے پارلیمنٹ کو بے اختیار حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔اس کے مطابق مرکزی حکومت ہر شہری کی پہچان کرکے اور رجسٹریشن کرنے کے بعد اس کو شناختی کارڈ جاری کرسکتی ہے۔اور اس طرح سے ہندوستانی شہری کا ایک رجسٹر بنایا جاسکتا ہے۔
اس مسلے پر جب پورے ملک میں احتجاج ہورہا ہے تو وزیر اعظم نے دسمبر میں کہا تھا کہ حکومت نے این آر سی پر ابھی کوٸی چرچا نہیں ہوٸی۔جبکہ اب سرکار اپنے حلف نامے میں کہا کہ این آرسی کا جواز 1955 کے شق میں ہی موجود ہے۔
 حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ  موجودہ قانون کے تحت ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
1..شہری ۔۔۔۔2..غیر قانونی شہری ۔۔۔3..ویزا پر رہاٸشی غیر ملکی۔
اس لٸیے یہ مرکزی سرکار کی ذمے داری ہے کہ وہ پاسپورٹ ایکٹ 1920 اور 1955 کے قانون کے تحت غیر قانونی شہریوں کی پہچان کرے اور اس کے بعد قانون کے داٸرے میں رہکر آگے کی کارواٸی کرے۔
اس سلسلے میں سرکار نے 1946 کے فارنرس ایکٹ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ غیر ملکیوں کو خارج کرنے مکمل اختیار حکومت کے پاس محفوظ ہے۔اس کے ساتھ ہی باقی کو بھی بے روک ٹوک خارج کیا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی سرکار نے افغانستان ، پاکستان و بنگلہ دیش کا حوالہ بھی دیا جہاں شہریوں کو شناختی کارڈ جاری کیا گیا ہے۔ حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ بہت سارے ممالک کی معلوم اطلاع کی بنیاد پر اس بات کا ذکر کرنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ وہاں پر ان کے شہریوں کے لٸے رجسٹریشن بنانے کا نظم ہے۔