Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 7, 2020

موجودہ حالات میں ہم کیا کریں؟



از/محمد عاطف سنابلی/ صداٸے وقت۔
============================
ہم (ہندوستانی مسلمان) اور مسلمانوں کی مسلم قیادتیں اگر کچھ کریں یا نہ کریں لیکن یہ کام ملک کے موجودہ منظر اور خطرناک تاریک اور بھیانک مستقبل کے تناظر میں ان کو یہ ضرور کرنا چاہئے کہ ملک کے وہ  طبقات، وہ تنظیمیں یا دلتوں اور منوواد( آر.ایس. ایس مخالف نظریات) سے لڑنے والے جتنے نوجوان ہیں جیسے وام سیف، بھیم آرمی وغیرہ جیسی سیکڑوں تنظیمیں ہیں،اسی طرح نوجوانوں میں جو نوجوان آر.ایس ایس. کی وچار دھارا کے خلاف لڑرہے ہیں جیسے چندر شیکھر آزاد، جگنیش میوانی، کنہیا کمار جیسے ہزاروں ہیں ان سب کو حوصلہ دیا جائے،جوڑا جائے، آگے کیا جائے اور پورے ملک بھر میں ہمہ جہت تعاون کے ساتھ مذکورہ نوجوانوں کی طرح ہزاروں نوجوانوں کو کھڑاکیا جائے، پس پردہ ان کا ہمہ جہت حکیمانہ تعاون کیا جائے جس کاسائڈ ایفکٹ نہ ہو ....یہ ہمارا ایک اہم کام ہے جسے ہمیں 2014 کے فورا بعد یا اور پہلے گجرات کے سانحہ کے بعد ہی شروع کردینا چاہئے تھا .....ہماری مسلم قیادتوں اور ملی ودینی تنظیموں کے ارباب اقتدار کو اس پہلو سوچنے اورغورکرنے کے لئے آگے آنا چاہئے اور اس پہلو پر ایجنڈا اور لائحہ عمل بناکر ہمیں یہ کام بڑی سنجیدگی سے کرنے چاہئے تھا....

دیکھئے یہ ہندوستان ہے یہاں ہم اقلیت میں ہیں واللہ اگر ہم سچائی امانت داری کے ساتھ حکمت ودانائی کے ساتھ زمینی کام کرتے اور ملک کی آب وہوا اوروہاں کے جغرافیائی اور مذہبی صورتحال کی روشنی میں اپنا سیاسی ایجنڈہ اور ویژن بھی ہم نے بنایا ہوتا اس لئے نہیں کہ اقامت دین( ایک خاص اصطلاح کی روشنی میں) کا کام آسان ہو بلکہ اس لئے کہ ہم اس ملک میں دین ومذہب پر عمل اور دعوت کی آزادی کے ساتھ رہیں تو شاید آج یہ مایوس کن منظر نامہ نہیں ہوتا ہم نے ستر سال بہت زبردست جرم کیا ہے پھر بھی ابھی سویرا ہے صبح نو کی کرنیں نظر آرہی ہیں.....
اس لئے آر.ایس ایس اورمنوواد مخالف دلت اورپسماندہ طبقات کی تنظیموں سے اپنے مراسم اچھے کئے جائیں اور زیادہ سے ایسی تنظیمیں فنڈنگ کرکے کھڑی کی جائیں جن سے آر.ایس.ایس کی نظریاتی جنگ کو کمزروکیا جاسکے بلکہ ناکام کرنا بھی عین ممکن ہے ....یہ ہمارے ملی ٹھیکیداروں کا کام ہے اب بھی کوئی وقت آئے گا....معلوم ہونا چاہئے دہلی فساد کا منظرنامہ کچھ اور ہوتا، مسلمانوں کی بستیاں اور ان کے مکان اور بڑے پیمانے پر نذرآتش کئے جاتے، ہزاروں کی تعداد میں جانیں جاتیں لیکن اللہ کریم ہے.... ان سنگھیوں کے ساتھ وہ مقامی لوگ جن کا تعلق دلت اور والمیکی اور دیگر پسماندہ طبقات وسماج سے تھا ان( فسادیوں)  کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے ...
ہمارے لئے بہت زبردست پیغام ہے اس سانحہ میں ....اور ایک مثبت پیغام بھی ہے کہ دلتوں اور پچھڑوں کوساتھ رکھنا اور کرنا کتنا ضروری ہے.....
کپل شرما کا مقصد تھا کہ مزید انہیں ( دلتوں اورکمزوروں کو) مظلوم ثابت کرکے ان کابھی ساتھ لیاجائے لیکن وہ کامیاب نہ پایا....اس لئے ہم سوچیں غور کریں اور قیادتیں کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ ان  مفیدومؤثر چیزوں کی طرف بھی توجہ دیکر عملی اقدامات کریں.....
ہم خطرناک مستقبل میں داخل ہوچکے ہیں اب یہ کہنے کا وقت نہیں ہے کہ مستقبل بہت خطرناک ہے ....کچھ عملی اقدامات کاوقت آچکا ہے ورنہ یہ مجرمانہ غفلت اور مصلحت آمیز خاموشیاں آنے والی نسلوں کے دین وایمان کی تباہی کا پیش خیمہ اور امن وسکون کے غارت کرنے کاسبب وسامان  ثابت ہوں گی ......
 *دوسراایک اہم کام یہ ہے* کہ سیکولر سیاسی پارٹیوں سے اپنے تعلقات اور مراسم بہتر کئے جائیں، انہیں متحداورمجتمع کرکے ہر صوبہ میں بی.جے پی کو پہلی فرصت میں  ریاستوں کے اقتدار سے دورکرنے میں ہم سب سیاسی پارٹیوں کا تعاون کریں، ہماری ملی اور نمائندہ تنظیمیں خاموشی سے خود ان کاموں پر عمل کریں اور اس متعلق کسی بیان بازی اورمیڈیائی تشہیر کی کوئی ضرورت نہیں، ہمارا المیہ ہے ہم کرتے کم ہیں مارکیٹنگ زیادہ کرتے ہیں تکچھ لوگ تو آج بھی دین وملت کی تجارت کرتے ہیں.....ہمارا دشمن چلاتا کم ہےکرتا زیادہ ہے......
 *تیسرااہم کام یہ ہے* نوجوان نسل کو اویسی جی کی وچاردھارا اورمذہبی سیاست کی خطرناکیوں سے آگاہ کریں، واقف کرائیں ان کاسیاسی بائیکاٹ کریں .....میرا ماننا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے جتنا خطرناک آر.ایس. ایس نہیں  ہے اس سے زیادہ  خطرناک اویسی کا پرتشدد سیاسی طریقہ کاراورخالص مذہبی اسلوب وانداز  ہے ....جس سے بی.جے. پی اور آر.ایس .ایس کو اپنے منصوبوں میں کامیابی مل رہی ہے اور مجھے تو اندیشہ ہے کہ کہیں اویسی صاحب ......بی.جے پی کا تو کام نہیں کررہے ہیں.....
اس لئے ہم ہر پہلو پر سوچیں کام کریں، زمین پر اتریں....

نوٹ:: مضمون نگار کی آرا سے ادارہ صداٸے وقت کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔