Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, March 5, 2020

واہ کیجریوال سے آہ کیجری والی تک۔۔۔!!!

از / شکیل شمسی /صداٸے وقت 
==============================
ابھی دہلی اسمبلی کے انتخابات کو ایک مہینہ بھی پورا نہیں ہوا ہے لیکن اروند کیجریوال کی حکومت پر بہت سے حلقوں کی طرف سے سخت تنقید ہونے لگی ہے، اور اس تنقید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے عام آدمی پارٹی کو بہت ذوق و شوق سے ووٹ دیے تھے.
اس تنقید کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ عام لوگوں کو لگ رہا ہے کہ الیکشن کے بعد اچانک شیر کی طرح دھاڑنے والے کیجریوال مرکزی حکومت کے سامنے بھیگی بلی بن گئے ہیں، کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے کیجریوال کو اس لیے ووٹ دیا تھا کہ وہ ان کے سیکولرسٹ ہونے پر یقین کرتے تھے ، مگر اچانک الیکشن جیتنے کے بعد عام آدمی پارٹی کی جانب سے اپنے اپنے حلقے میں سندر کانٹھ کا پاٹھ (رامائن میں ھنومان جی کی مدح میں لکھا گیا باب) کیے جانے کا اعلان کردیا گیا، اروند کجریوال ہوں یا سوربھ بھاردواج دونوں کو اپنے اپنے مذہب کی پیروی کرنے کا پورا حق ہے، لیکن سرکاری یا پارٹی کی سطح پر اس قسم کے پروگرام کا مطلب یہی لیا گیا کہ عام آدمی پارٹی بھی بی جے پی کی راہ پر چل پڑی ہے.
دوسری اہم بات یہ ہے کہ دہلی کے فسادات کے سلسلے میں کیجریوال کی حکومت نے جو رویہ اختیار کیا اس سے عام لوگ کافی حیران ہیں، ہرچند کہ ان کے ہاتھ میں نہ تو پولیس ہے اور نہ ہی وہ فسادات یا بلوے کو روکنے کے اہل ہیں، اس لیے ان سے یہ امید تو نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ فسادات کی روک تھام کر سکیں گے، مگر ان کے تمام ووٹرس کو اس بات کا یقین ضرور تھا کہ وہ بی جے پی کے اُن لیڈروں کے خلاف زبان کھولیں گے جنہوں نے اس فساد کو بھڑکانے میں اہم رول ادا کیا کیا۔ ان سے عام ووٹر یہ بھی امید کرتا تھا کہ وہ دہلی پولیس کی ستائش کرنے کے بجائے اس کی جانب سے اٹھائے گئے ظالمانہ اقدام کی مذمت کریں گے.
فساد میں مرنے والے پولیس والے اور خفیہ محکمے کے اہلکار کو ایک ایک کروڑ روپے دینے کے اعلان سے بھی کوئی ان پر تنقید شاید نہ کرتا، کیونکہ کیجریوال نے کافی دنوں سے یہ پالیسی بنا رکھی ہے کہ مسلح افواج یا پولیس کا جو بھی اہلکار اپنی ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہوتا ہے اس کو ان کی سرکار ایک کروڑ روپے دیتی ہے، مگر عام لوگوں کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ پولیس والوں نے جس طرح بلوائیوں کے ساتھ مل کر اقلیتی فرقے کے لوگوں کو نشانہ بنایا اس کی شکایت بھی وہ تحریری طور پر مرکزی حکومت سے کریں گے، اور مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے تین دن تک فساد روکنے کے لیے کوئی سخت قدم نہ اٹھائے جانے کی کھل کر مذمت کریں گے.
کیجریوال نے جس طرح طاہر حسین کو بغیر کسی ثبوت اور جانچ کے پارٹی سے معطل کیا اس کو بھی لوگوں نے پسند نہیں کیا، کیوں کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ طاہر حسین کو پولیس نے خود ان کے گھر سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچایا تھا، کیجریوال صاحب اور ان کے ارکان اسمبلی کی نظروں سے سے ایسے تمام ویڈیوز ضرور گزرے ہونگے جن میں پولیس والے بلوائیوں کے ہمراہ اقلیتی فرقے کی بستیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں، انہوں نے بھی وہ ویڈیو دیکھا ہوگا جس میں پانچ مسلم نوجوانوں کو سڑک پر گرا کر بری طرح مارنے کے بعد ان سے قومی ترانہ گانے کو پولیس والے کہہ رہے تھے، جن لڑکوں کے لئے سانس لینا دشوار تھا، یہ بھی پوچھ رہے تھے کہ آزادی چاہیے آزادی! ایسے ویڈیو فیک بھی نہیں ہیں، کیونکہ بی بی سی جیسے معتبر نیوز چینلوں نے ان ویڈیوز کو دکھایا ہے۔ الجزیرہ اور دوسرے بیرونی چینلوں نے بھی ایسی کئی ویڈیوز شیئر کی ہیں جن میں پولیس والے فسادیوں کی مدد کر رہے ہیں.
ہر شخص امید کر رہا تھا کہ کیجریوال کچھ کریں یا نہ کریں کم سے کم سچ بولنے کی ہمت تو کریں گے، کیونکہ وہ کبھی بھی کسی سے ڈر کر چپ نہیں رہے. یہ سب باتیں ہی کافی تھیں ان کی امیج خراب کرنے کے لیے کہ انہوں نے کنہیاکمار ، انربن باگچی اور عمر خالد پر ملک سے غداری کرنے کا مقدمہ چلائے جانے کی اجازت دے دی، ہمیں معلوم ہے کہ کیجریوال صرف مسلمانوں کے ووٹوں سے ہی کامیاب نہیں ہوئے ہیں، ان کی پارٹی کو دہلی کے %53.6 فیصد لوگوں نے ووٹ دیے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے یکطرفہ طور پر عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیے، اس لئے عام آدمی پارٹی کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ اس اقلیت کا پوری طرح خیال رکھے جس نے اس پر آنکھ بند کرکے اعتبار کیا ہے.
آخر میں اروندکیجریوال اور ان کے ساتھیوں سے عرض کر دیں کہ ہم اس تحریر کے ذریعے ان تک عوام کے اس درد کو پہنچا رہے ہیں جس کی گونج شوشل میڈیا پر جا بجا دکھائی اور سنائی دے رہی ہے، ہمیں امید ہے کہ عام آدمی پارٹی کے تمام ممبران سرجوڑ کر بیٹھیں گے اور غور کریں گے کہ عوام کی یہ  شکایتیں حق پر مبنی ہیں یا نہیں.

✍ *شکیل شمسی* 
ایڈیٹر روزنامہ انقلاب اردو 
نئی دہلی.