Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, March 13, 2020

امت شاہ کی زبان سچ یا قانون کی زبان۔؟

*امت شاہ کی زبان سچ یا قانون کی زبان؟بھروسہ کرنے سے پہلے یہ تحریر ضرور پڑھیں* 

از/مہدی حسن عینی /صداٸے وقت۔
==============================
گزشتہ روز  وزیر داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ این پی آر میں نا تو کوئی کاغذ مانگا جائے گا اور نا ہی کسی کے نام کے سامنے D یعنی مشکوک لکھا جائے گا،امت شاہ کا یہ بیان یقینی طور پر 90 دن سے جاری تحریک کے دباؤ کا نتیجہ ہے،لیکن زبانی بیان بازی کی اب نا تو کوئی حیثیت ہے اور نا ہی اس پر کوئی اعتماد.

      *این پی آر کی بنیاد*

این پی آر کی بنیاد سٹزن شپ رول 2003 کی شق نمبر 4 ہے،جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ این پی آر این آر سی کے لئے پہلا قدم ہوگا، 31جولائی 2019 کو مرکزی حکومت کی جانب سے گزٹ نوٹیفکیشن یعنی اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ مرکزی حکومت پورے ملک میں این آر سی کرانے کے لئے تیار ہے اس سے پہلے این پی آر کرایا جائے گا.
14 جون 2014 سے 31 جولائی 2019 تک 9 مرتبہ لوک سبھا و راجیہ سبھا میں کہا گیا کہ پہلے  این پی آر ہوگا پھر این آرسی کرائی جائے گی.
این پی آر 2020 کے مینوول اور شہریت قواعد 2003 کے شق نمبر 4 میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ این پی آر کرنے والے سرکاری اہلکار کو مکمل اختیار ہے کہ وہ جس کی شہریت مشکوک سمجھے اس کے نام کے سامنے D یعنی ڈاؤٹ فل سٹزن لکھ دے،اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ کوئی بھی شخص اگر کسی شہری کی شہریت کے تعلق سے اعتراض کرے تو مجسٹریٹ یا رجسٹرار اس شہری کو مشکوک قرار دے کر اس کو 30 دن کے اندر اندر اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے نوٹس بھجے گا.
2020 این پی آر میں ،آٹھ اضافی ڈیٹا فیلڈز اب بھی موجود ہیں جو والدین کی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش،کسی شخص کا موجودہ اور مستقل پتہ،مادری زبان اور قومیت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
ساتھ ہی پورے ملک میں ابھی تک جن ٹیچرز اور سرکاری اہلکاروں کو این پی آر کی تربیت دی گئی ہے یا دی جارہی انہیں یہ بات بتائی جارہی ہے کہ جس کی مادری زبان کے اس کے رہائشی علاقہ کے مطابق نا ہو اس کے نام کے سامنے D لکھ دیا جائے،جس شخص یا اس کے والدین کی تاریخ پیدائش یا جائے پیدائش میں شک ہو اس کے سامنے D لکھا جائے،
اس تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا میں صرف گمراہ کیا ہے اور کچھ نہیں،چونکہ حکومت پر عالمی برادری کا شدید دباؤ ہے،اس لئے امت شاہ اس طرح بیان بازی کرکے ماحول کو نارمل کرنا چاہتے ہیں،تاکہ این پی آر بائیکاٹ کی مہم اور ملک بھر کے احتجاجی مظاہرے ختم ہوں.
پھر بھی چونکہ وزیر داخلہ نے اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد اور آنند شرما کا نام لیتے ہوئے کہا کہ وہ اس مدعے پر ان سے ہر وقت بات چیت کرنے کے لئے تیار ہیں.لہذا سماجی کارکنان، وکلاء،ماہرین قانون اور ملی جماعتوں کے راہنماؤں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ فی الفور ایک وفد تشکیل دے کر اپوزیشن کے بڑے لیڈروں کے ساتھ وزیر داخلہ سے ملاقات کریں اور یہ مطالبات رکھیں:

             *مطالبات* 
            ==========
Citizenship Rules 2003 .1
کے شق نمبر 3،4،5 کو حکومت ختم کردے تاکہ عوام میں مشکوک شہری بنائے جانے کا جو خوف ہے وہی ختم ہوجائے،

2.وزارت داخلہ نیا گزٹ نوٹیفکیشن (اعلامیہ)جاری کرے جس میں سرکاری اہلکاروں کو واضح طور پر حکم دیا جائے کہ وہ این پی آر کے فارم پر کسی شہری کو ہرگز مشکوک نہیں بناسکتے،

3.حکومت NPR 2020 کا مینوول اور زائد سوالات واپس لے کر نیا مینوول جاری کرے جس میں یہ بات واضح طور پر درج ہو کہ نا تو کسی شہری سے کوئی کاغذ مانگا جائے گا،نا کسی کو مشکوک بنایا جائے گا اور نا ہی این پی آر کی معلومات کو این آر سی کے لئے استعمال کیا جائے گا.
4.وزارت داخلہ ایک نیا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرکے بتائے کہ اس نے مستقبل میں کبھی بھی ملک کے کسی خطہ میں این آرسی نہیں کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور 31 جولائی 2019 کا گزٹ نوٹیفکیشن واپس لیا جائے.

5.حکومت این پی آر کا مقصد واضح کرے،کیونکہ اگر این پی آر کا مقصد ڈیجٹلائزیشن،
پالیسی سازی اور منصوبہ بندی و حصول معلومات ہے تو یہ سارے کام مردم شماری سے ہوتے ہیں جو 2021 میں ہونا چاہیے لہذا این پی آر کی کوئی ضرورت نہیں. 
اگر وزیر داخلہ ان مطالبات کو تسلیم کرکے تحریری طور پر انہیں جاری کرتے ہیں تو خیر مقدم ہے ورنہ این پی آر کا مکمل طور پر بائیکاٹ جاری ہے اور رہے گا،ان شاء اللہ
کیونکہ این پی آر کی بنیاد ہی سٹزن شپ رول ہے جو این آر سی کا پہلا قدم ہے،اور وہ ہندوستانی شہریوں کے مفاد عامہ،انسانی حقوق اور رائٹ ٹو پرائیویسی کے صریح خلاف ہے،

مہدی حسن عینی
mehdihasanqsmi45@gmail.com