از/ *خان حسنین عاقب*صداٸے وقت
=====================
خدا کی بستی خدا کے بندوں سے خالی خالی سی ہوگئی ہے
زمیں کی رونق بھی کھو گئی ہے
یہ خالی گلیاں یہ سونی سڑکیں
نہ گہما گہمی کہیں نہ بڑکیں
اذاں معطل نماز غائب
بس اک مؤذن ہے
اور حاضر امام صاحب
نہ مسجدوں میں نمازیوں کی چہل پہل ہے
نہ مندروں میں پجاریوں کی ادل بدل ہے
ہر ایک چوراہے پر سپاہی کھڑے ہوئے ہیں
شریر لڑکے بھی چھوٹی چھوٹی سی ٹولیوں میں
جدید ابنِ بطوطہ بننے کی ضد پہ کب سے اڑے ہوئے ہیں
خدا کی دھرتی پہ سینہ تانے
اکڑ اکڑ کر جو چل رہے ہیں
جو عارضی اقتدار کے بل پہ
خوب اونچا اچھل رہے ہیں
وہ زعم و مستی وہ کج ادائی
وہ خود نمائی وہ خود ستائی
وہ پیش قدمی وہ پیش دستی
نہ کوئی اوقات ہے نہ ہستی
یہ گمرہی اور یہ کج کلاہی
یہی تو ہے باعثِ تباہی
ذرا سا جرثومہ
نہ جس کے دُم ہے نہ جس کے سر ہے
ذرا سا جرثومہ
فلک سے جو کچھ پیام آیا
ہمیں وہ پڑھ کر سنارہا ہے
ذرا سا جرثومہ آج ہم کو
جگہ ہماری دکھارہا ہے
______________