Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, March 31, 2020

دیار مغرب سے ملنے والی غیر مہذب و ناشاٸستہ روایت ” اپریل فول “



عاصم طاہر اعظمی/ صداٸے وقت۔٣١ مارچ ٢٠٢٠
7860601011
9307861011 
==============================

مشرقی اقوام کو دیار مغرب سے ملنے والی غیر مہذب وناشائستہ روایات میں ایک بڑی روایت”اپریل فول“ کہلاتی ہے، ہر سال یکم اپریل کو مرد وزن آپس میں ایک دوسرے کو جھوٹ بول کر واہیات پھیلا کر بے وقوف بناتے ہیں ایک دوست دوسرے دوست کو مٹھائی کھلانے کے بہانے بدمزہ چیز کھلا کر احمق بناتا ہے کوئی اپنے دوست احباب اوررشتہ داروں کو اپنے ہی کسی عزیز کے مرنے کی جھوٹی خبر دے کر انہیں رنج وغم میں مبتلا کرجاتا ہے اور کوئی اسی طرح کی جٹ پٹی خبر پھیلاکر لوگوں کا تمسخر اڑاتا ہے-

           عاصم طاہر اعظمی۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم دینِ اسلام کی روشن تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر مادر پدر آزاد اغیار کی بے ہودہ اور بد تہذیب عادات و اطوار کے گرویدہ بنتے چلے جارہے ہیں، دینِ اسلام ہمیں جھوٹ بولنے سے منع کرتا ہے، اس کے باوجود ہم یکم اپریل کے دن یہود و نصاریٰ کی نقالی کرتے ہوئے جھوٹ بول کر اپنے احباب واقرباءکو بے وقوف بناتے اور ان کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں ،اور پھر اپنے اس گناہ کو فخریہ انداز میں لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں،
دنیا بھر میں یکم اپریل کے روز بولے جانے والے جھوٹ کی وجہ سے بے شما ر لوگوں کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ اپریل فول کاشکار ہونے والے لوگ شدید صدمے میں مبتلا ہوکر جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور کئی معاشرے میں منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہتے، اور گھر کی چہار دیواری تک محدود ہوجاتے ہیں ۔ کتنے ہی گھروں میں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور کتنے خوش وخرم جوڑے مستقل طور پر ایک دوسرے سے متعلق شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔اور مذاق کرنے والے ان سارے ناقابل تلافی گناہ و نقصانات کا چاہتے ہوئے بھی ازالہ و کفارہ ادا نہیں کر سکتے، جبکہ یہود و نصاریٰ کی تہذیب کی تقلید میں اندھے اکثر لوگ اپریل فول کی حقیقت سے بھی واقف نہیں ہوتے ہیں
*اس رسم کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی*
اس بارے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے مختلف مؤرخین کی الگ الگ وجوہات لکھی ہیں:
(1) بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترھویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس کی طرف منسوب کرتے تھے،
(2) اور دوسرے بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ چونکہ یکم اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا، اس لیے اس دن کو لوگ جشن مسرت کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا جو رفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کرگیا،
(3) بریٹانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ بیان کی جاتی ہے کہ 21 مارچ  سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذاللہ) قدرت ہمارے ساتھ مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے کو میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کردیا،
(4)ایک دوسری تاریخ کے مطابق یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کی بنیاد اسلام اور مسلم دشمنی پر رکھی گئی ہے۔ تاریخی طورپریہ بات واضح ہے کہ اسپین پر جب عیسائیوں نے دوبارہ قبضہ کیا تو مسلمانوں کا بے تحاشا خون بہایا۔آئے روز قتل وغارت کے بازار گرم کیے۔ بالآخر تھک ہار کر بادشاہ فرڈینینڈنے عام اعلان کروایا کہ مسلمانوں کی جان یہاں محفوظ نہیں ،ہم نے انہیں ایک اور اسلامی ملک میں بسانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو مسلمان وہاں جانا چاہیں ان کے لیے ایک بحری جہاز کا انتظام کیا گیا ہے جو انہیں اسلامی سرزمین پر چھوڑ آئے گا۔حکومت کے اس اعلان سے مسلمانوں کی کثیر تعداد اسلامی ملک کے شوق میں جہاز پر سوار ہوگئی۔جب جہاز سمندر کے عین درمیان میں پہنچا تو فرڈینینڈ کے فوجیوں نے بحری جہاز میں بذریعہ بارود سوراخ کردیا اور خود بحفاظت وہاں سے بھاگ نکلے۔دیکھتے ہی دیکھتے پورا جہاز غرقاب ہوگیا۔ عیسائی دنیا اس پر بہت خوش ہوئی اور فرڈینینڈکو اس شرارت پر داد دی۔یہ یکم اپریل کا دن تھا۔آج یہ دن مغربی دنیا میں مسلمانوں کو ڈبونے کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔یہ ہے اپریل فول کی حقیقت!
اس کے علاوہ اس کی کئی وجوہات مختلف اہل علم حضرات نے لکھی ہے لیکن کون درست ہے کون غلط یہ بہتر کسی کو نہیں معلوم،
*برِصغیر میں فول اپریل*
کہاجاتا ہے کہ برِصغیر میں پہلی بار فول اپریل انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر سے منایا، جب وہ رنگون جیل میں تھے انگریزوں نے صبح کے وقت بہادر شاہ ظفر سے کہا کہ یہ لو تمہارا ناشتہ آگیا ہے جب بہادر شاہ ظفر نے پلیٹ پر سے کپڑا ہٹایا تو پلیٹ میں ان کے بیٹے کا  کٹا ہوا سر تھا جس سے بہادر شاہ ظفر کو بہت صدمہ پہنچا، جس پر انگریزوں نے ان کا خوب مذاق اڑایا، (بحوالہ اپریل فول از عبدالوارث ساجد ،ص/31)
نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی جو علامات بتائی ہیں ، ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بہت سے گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب مہذب اور شائستہ ناموں سے کریں گے، شراب نوشی کریں گے مگر نام بدل دیں گے، سود خوری کریں گے اور اس کو نام کچھ اور دے دیں گے، غور کیا جائے تو یہ برائی کی سب سے بد ترین صورت ہوتی ہے کیوں کہ اس میں بھلائی کے لبادے میں برائی کی جاتی ہے، تہذیب کے نام پر بد تہذیبی کو روا رکھا جاتا ہے، آزادی کے نام پر نفس کی غلامی کی راہ ہموار کی جاتی ہے، اسلام جس وقت دنیا میں آیا اس وقت بھی کم و بیش یہی حالت تھی، اہل عرب اپنے کو دین ابراہیمی کا پیروکار کہتے تھے، لیکن پوری طرح شرک میں ملوث تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قرب قیامت کی جو جو علامات ارشاد فرمائی ہیں، کسی قدر معمولی غور و فکر سے دیکھا جائے تو وہ منظر قریب قریب اب ہمارے سامنے ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہم اس دور سے گذر رہے ہیں،
*ٹھہریے، رکیے اور سوچیے*
کیا آپ بھی یکم اپریل کو غیر اسلامی تہوار اپریل فول مناتے ہیں تو یہ بات یاد رکھ لیں کہ یہ رسم مندرجہ ذیل بدترین گناہوں کا مجموعہ ہے۔(1) جھوٹ بولنا۔(2) دھوکہ دینا۔ (3) دوسرے کو اذیت پہنچانا، (4) ایک ایسے واقعے کی یادگار منانا، جس کی اصل یا تو بت پرستی ہے، یا توہم پرستی ہے،
مسلمانوں کو اپریل فول منانا جائز نہیں،کیونکہ اس میں کئی مفاسد ہیں جو ناجائز اور حرام ہیں۔
اس میں غیرمسلموں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور حدیث مبارکہ میں ہے:
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
(سنن ابی داؤد، رقم:4033)
کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔تو جو لوگ اپریل فول مناتے ہیں اندیشہ ہے کہ ان کا انجام بروز قیامت یہود ونصاری کے ساتھ ہو۔ایک واضح قباحت اس میں یہ بھی ہے کہ جھوٹ بول کر دوسروں کو پریشان کیا جاتا ہے اور جھوٹ بولنا شریعت اسلامی میں ناجائز اور حرام ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
إنَّ الصِّدْقَ بِرٌّ، وإنَّ البِرَّ يَهْدِي إلى الجنَّة، وإن الكَذِبَ فُجُورٌ، وإنَّ الفُجُورَ يَهدِي إلى النّار
(صحیح مسلم، رقم الحدیث:2607)
ترجمہ: سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا گناہ ہے اور گناہ [جہنم کی] آگ کی طرف لے جاتا ہے۔بلکہ ایک حدیث مبارک میں تو جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے:
 اب مسلمانوں کو خود یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ آیا یہ رسم اس لائق ہے کہ اسے مسلم معاشروں میں اپنا کر فروغ دیا جائے؟ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں اپریل فول منانے کا رواج بہت زیادہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی ہر سال کچھ نہ کچھ خبریں سننے میں آہی جاتی ہیں کہ بعض لوگوں نے اپریل فول منایا، جو لوگ بے سوچے سمجھے اس رسم میں شریک ہوتے ہیں وہ اگر سنجیدگی سے اس رسم کی حقیقت، اصلیت، شرعی حیثیت اور اس کے نتائج پر غور کریں تو ان شاءاللہ اس سے پرہیز کی اہمیت تک ضرور پہنچ جائیں گے،
غرض اس قبیح فعل سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں،
حق تعالیٰ جل مجدہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمیــــن