Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, March 31, 2020

” تبلیغی جماعت“ کے خلاف میڈیا کا منفی شرم ناک پروپگینڈہ۔۔۔۔پورے معاملات کے لٸے حکومت و انتظامیہ ذمے دار ۔۔۔۔۔۔۔۔ملی کونسل۔


نئی دہلی ۔۔/صداٸے وقت /٣١ مارچ ٢٠٢٠۔(پریس ریلیز)۔
==============================
کروناوائرس اور ملک بھر میں اکیس دنوں تک کیلئے جاری مکمل لاک ڈاﺅن کے درمیان تبلیغی جماعت پر جس طرح تنقید کی جارہی ہے اور اسے کروناوائرس کا سینٹر بناکر پیش کیاجارہاہے وہ شرمناک ہے ۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کیا ۔ انہوں نے کہاکہ ملک کی میڈیا اور دیگر کئی گروپ تبلیغی جماعت پر الزام عائد کررہے ہیں کہ یہاں لاک ڈاﺅن کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور کرونا کو بڑھاوا دیاگیاہے جبکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے ۔

23 مارچ کو وزیر اعظم نریندر مودی صاحب نے اچانک اکیس دنوں کیلئے مکمل لاک ڈاون کا اعلان کیاتھا ،اس سے ایک روز قبل ملک بھر میں جتنا کرفیو تھا ،اسی دوران مختلف ریاستوں نے بھی لاک ڈاﺅن کا اعلان کردیاتھا اس لئے ممکن نہیں تھاکہ مرکز نظام الدین کی انتظامیہ اپنے یہاں آئے لوگوں کو واپس بھیج سکے کیوں کہ سبھی راستے بند تھے ۔ مرکز کی انتظامیہ نے ڈی ایس پی سے سترہ گاریوں کی اجازت بھی طلب کی تھی جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ 
ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کہاکہ تبلیغی جماعت کا نظام ملک میں گذشتہ سو سالوں سے جاری ہے ۔ دنیا بھر میں اسے ایک پرامن جماعت کے طور پر جاناجاتاہے ،آج تک اس کے بارے میں کسی طرح کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی ہے ۔نہ ہی کسی طرح کی سیاسی اور سماجی مسئلے میں ان کی کبھی کوئی مداخلت ہوتی ہے ۔ یہاں دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں ۔ سالوں پہلے ان کا شیڈول تیا رہوجاتاہے ایسے میں لاک ڈاﺅن کے اعلان کے بعد ممکن ہی نہیں تھاکہ وہاں کے لوگوں کو ان کے گھر بھیج دیاجائے ۔دوسری طرف لاک ڈاﺅن میں یہ تاکید کی گئی تھی کہ جو جہاں ہے وہیں رک جائے ۔ اس لئے مرکز نظام الدین میں جو لوگ تھے ان کے پاس یہاں سے جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا اور انتظامیہ نے واپسی کی درخواست پر توجہ نہیں دی ۔ اس واضح حقیقت کے باوجود جس طرح مرکز نظام الدین کو بدنام کیاجارہاہے اور کچھ لوگوں نے اسے بھی ہندو بنام مسلمان کا مسئلہ بنادیاہے وہ شرمناک اور قابل مذمت ہے ۔ لاک ڈاﺅن میں واضح ہدایت یہی تھی کہ جو جہاں ہے وہیں رک جائے اس لئے انہوں نے وہاں ٹھہر کر کوئی غلط نہیں کیااور ٹھہرنا غلط تھا تو پھر انتظامیہ کو واپسی کا انتظام کرنا چاہیئے تھا جو نہیں ہو سکا ۔ بہر صورت تبلیغی مرکز کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے اور اس معاملہ کو منفی انداز سے پیش کرنا بیمار ذہنیت اور اسلام فوبیاکی علامت ہے ۔