Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, March 30, 2020

عوام کی بے بسی اور پولیس کی جارحیت !!!!



از/ شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی/ صداٸے وقت۔
==============================
  کوئی معاشرہ کوئی ملک کوئی آرگنائزیشن حتی کہ ایک محدود خاندان بغیر نظم ونسق کے نہیں چل سکتا، قوم وملت اور ملک ومعاشرہ اسی وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک وہ کسی نظام کسی سسٹم اور کسی قانون کی ڈور کے ساتھ بندھا ہے'،یہی قانون اور نظم وضبط اسے ترقی کی راہوں پر لاتا ہے'،کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے'، ملک کو جرائم سے محفوظ رکھتا ہے'امن کی خوشگوار فضا پیدا کرتا ہے'،نظم وضبط کے بغیر معاشرہ ایک انسانی بھیڑ ہے ۔سماج ایک جنگلی اور وحشی گلہ ہے'جس کی نہ کوئی سمت سفر ہے'نہ کوئی مستقبل، امن وسکون ہے'نہ راحت و عافیت کا ماحول پیدا کرنے والی کوئی روشنی۔۔۔
عہد قدیم سے لیکر عصر حاضر تک جن قوموں نے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں اس کا راز یہی نظم ونسق اور عدالت وانصاف ہے' عوام کے ساتھ ساتھ مقتدر اعلی اور اصحاب مناصب کو قانونی ڈور سے وابستہ کرنے کے لئے ہر زمانے میں محافظین پر مشتمل ایک شعبہ  کی حکومتی سطح پر تشکیل دی گئی
رومن ایمپائر کے دور میں یقیناَ اس شعبے کو ترقی دی گئی لیکن اسلام کے عہد زریں میں حضرت عمر فاروق کی امارت میں اس شعبے نے  بہت  نمایاں ترقی کی اور ہر لحاظ سے مستحکم اور مضبوط ہوگیا۔ یورپ میں کلیسا کے دور حکمرانی میں ان محافظوں کے ساتھ جو بڑے بڑے عہدے دار تھے انہیں بھی پولیس کہا جاتا تھا مگر اس کے ملحدانہ اعتبار سے اور مذہب بیزاری کے لحاظ سے ارتقائی دور میں فکر ونظر کی نمایاں تبدیلیوں کے باوصف بدستور اس شعبے کے افراد کو پولیس کہا گیا ہاں اتنا ضرور ہے'کہ سیاست دانوں کو اس فہرست سے نکال کر اس محکمہ کے دائرے کو مختصر کردیا گیا،

اس وقت پوری دنیا میں ملکی قوانین کا نفاذ اسی پولیس محکمے کے 
ذریعے سے جاری ہے تاہم انہیں اتنے وسیع اختیارات حاصل نہیں ہوتے کہ اپنی مرضی سے کسی کو گرفتار کرلیں یا کسی کو محض شبہ کی بنا پر تشدد کرنے لگیں اور مختلف قسم کی سزاؤں سے دوچار کرنے لگیں، ان کا وجود اس لیے ہے'کہ قانون کے دائرے میں رہ کر مکمل اخلاقیات اور انسانیت کے ساتھ نظم وضبط کی فضا میں ابتری نہ پیدا ہونے دیں عموماً دنیا کے تمام خطوں خصوصا عالم عرب اور یورپ میں اسی روش پر یہ محکمہ قائم ہے'اسی لیے عوام کے دلوں میں ان کی عظمت ہے'،اور وہ ان کے فرائض میں ہر طرح سے تعاون کرتی ہے'،


لیکن  عجیب بات ہے کہ بھارت میں یہی محکمہ ایک
خوفناک،لرزہ خیز، وحشی، اخلاق وانسانیت سے ناآشنا،اورمتشدد ودرندگی کی علامتوں کے ساتھ جانا جاتا ہے'۔ 
ملک کے عوام میں اس طبقے کے متعلق جو تصویر ہے'وہ ایک ایسے ظالم کی ہے' رحم و ہمدردی کا کوئی خانہ جس کے کردار میں نہیں ہے'،ایک وحشی اور سنگدل کی ہے' جس کے یہاں اخلاق کا گذر نہیں ہے، ایک ایسے متعصب کی ہے' جو انصاف سے یکسر ناآشنا ہے'، ایک ایسے بداخلاق ، بدعنوان اور سفاک کی ہے'تہذیب وتمدن اور معاشرتی تقاضوں سے جو بالکل عاری ہے،

عوام کا یہ تصور اور خیال یونہی اور بلا وجہ بھی نہیں ہے'بلکہ اس کے پیچھے اس طبقے کی سیاہ کرداروں کی ایک طویل داستان ہے'
جس میں اخلاق سوز انسانیت سوز، حرکتوں،اور ان کی جارحیت وبربریت اور ظلم وسفاکیت کے ابواب پوری حشر سامانیوں کے ساتھ نمایاں ہیں، حال ہی میں حقوقِ انسانیت اور تحفظ جمہوریت کا علم لیکر اٹھنے والے اور قانون کی سالمیت کے لئے آواز اٹھانے والے جامعہ ملیہ کے فرزندوں پر ان کی بربریت اور دہلی مسلم علاقوں میں شرپسندوں کے شانہ بشانہ قتل وغارت گری اور آتش زنی کے مجرمانہ واقعات،اور فسادات کی روک تھام کے مقصد سے ملنے والی گولیوں کو نہتے عوام پر چلا کر بے شمار افراد کا قتل ابھی تازہ مثال ہے'۔۔

ملک کی عوام کی بنیادی ضروریات پر نظر کئے بغیر اور زندگی کی مین ضروریات کے انتظام کے بغیر، ملک گیر لاک ڈاؤن کے نتیجے میں جو ہر سو اضطرابی کیفیت پیدا ہوئی ہے'،جگہ جگہ افراتفری پھیلی ہے'، لازمی نقل وحرکت کی جو دشواریاں سامنے آئی ہیں وہ ہر فرد کے سامنے ہے'، ان پابندیوں کے نتیجے میں جس قدر متوسط طبقے کی زندگی موت کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے،پلیٹ فارموں پر،پبلک مقامات پر، کارخانوں سے لیکر دکانوں پر جس طرح لوگ افلاس کا شکار اور بھوک کا شکا ر ہوئے ہیں،پولیس کا یہ طبقہ ان حالات سے اچھی طرح واقف ہے'لیکن باوجود اس کے وہ ذرا بھی اخلاقی عمل اور انسانی کردار اختیار کرنے کو تیار نہیں ہے'، اور ہر طرف بے دریغ طاقتوں کا استعمال کررہا ہے'، قوم کی کسی بھی طرح کی خدمت جیسے اس کے فرض منصبی میں داخل ہی نہیں ہے'یا جیسے یہ کوئی دوسری مخلوق ہو کہ سفاکیت ہی جس کی فطرت ہو اور ظلم جس کی طبیعت ہو،انسان اور انسانی تہذیب سے جسے ازل کا بیر اور عداوت ہو،

پورے ملک کو بغیر کسی انتظام کے مہینوں کے لئے قید خانہ کی شکل میں بدل دینا جس قدر مشکل ہے'اسی قدر تباہ کن بھی ہے'مگر ان تمام باتوں کو پس پشت ڈال کر جہاں وہ کسی کو راستے میں دکانوں پر پا رہا ہے تابڑ توڑ اس پر حملے کررہا ہے'اس ظلم میں نہ وہ نوجوانوں کا خیال کررہا ہے'نہ ہی بزرگوں کا لحاظ۔
ملک میں جاری ان کی بربریت کی مسلسل ایسی ویڈیوز آرہی ہیں جس میں کوئی اپنی ضرورتوں کے لئے گھر سے باہر نکلا اور ان کی لاٹھیوں کا شکار ہوگیا، ایک چینل نے ایک ویڈیو وائرل کی ہے'جس میں ایک بزرگ شخص جارہاہے اسے پکڑ کئی پولیس نے اپنے رول سے اس قدر مارا کہ وہ موت کے قریب ہوگیا
بنگال کے دیناج پور میں ایک شخص پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ زندگی سے ہار گیا،ممبئی کے ممبرا کے علاقے میں ایک شخص اس کی دسترس میں آیا تو اسے مار مار کر مفلوج کردیا، اس طرح کے جابرانہ اور ظالمانہ واقعات روزانہ رونما ہورہے ہیں کوئی دن ایسا خالی نہیں جاتا جس میں ان کی بربریت کے مناظر وائرل نہ ہوتے ہوں۔


 مساجد میں نمازیوں پر لاٹھیاں برسانا ان کا معمول بن گیا ہے'کرناٹک میں متعدد مساجد کے دروازوں پر پوری منصوبہ بندی سے بیسیوں کی تعداد میں اس مخلوق نے ناکہ بندی کرکے ایک اک فرد کو حملوں کا نشانہ بنایا ہے'،

حالیہ وبا کے پیشِ نظر عبادات پر پابندی ملک کی حفاظت کا حصہ ہے جس کی اہمیت اور ضرورت کا کسی کو انکار نہیں، مگر یہ کون سا قانون اور کون سا تحفظ ہے'کہ ایک موہوم مرض کے بہانے ظلم وبربریت کی تاریخ رقم کردی جائے، مساجد میں عبادتوں پر روک لگا سکتے ہیں،جیسا کہ انتظامیہ نے پابندی عائد کی اگر کسی عبادت گاہ کی کمیٹی خلاف ورزی کرتی ہے' تو دوسرا آپشن وارننگ کی صورت میں موجود ہے انہیں مقفل کیا جا سکتا ہے'مگر عام لوگوں پر تشدد کرنے اور ظلم کرنے لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ذریعے جارحیت روا رکھنے کا جواز انہیں کہاں سے حاصل ہوگیا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے۔

 مظالم اور سفاکانہ کرداروں کے عادی ان لوگوں کو اتنا بھی شعور نہیں ہے کہ جس ڈنڈے سے بے شمار لوگوں پر حملے کررہے ہیں اگر ان میں ایک فرد بھی خدا نخواستہ کرونا سے متاثر ہے تو وہی ڈنڈا جو اوروں پر پڑا ہے'وہ خود اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن جائے گا،
 مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان ظالموں کا مقصود وبا اور امراض سے عوام کا تحفظ ہے ہی نہیں انہیں انتظار رہتا ہے'کہ کب کوئی موقع جارحیت کا ہاتھ آئے اور 1857/میں انگریزی پولیس اور فوج کی طرح اپنے ظلم وجبر کی پیاس بجھائی جائے، حالانکہ حکومتوں نے واضح انداز میں یہ ہدایت کی ہے'کہ بیس بار پبلک کو سمجھاؤ،حالیہ وائیرس کی خطرناکیوں سے انہیں واقف کراؤ مگر ان کے ساتھ سختی کا رویہ نہ اختیار کرو لیکن باوجود اس کے پورے ملک میں انہوں نے اپنے ظالمانہ کرداروں سے سراسیمگی پھیلا رکھی ہے'، عوام اس وقت دوچکی کے پاٹوں کے درمیان پس رہی ہے'
 ایک طرف کرونا وائرس کا قہر ہے اس کے خوف کی ہر سو لہر ہے'،دوسری طرف بنیادی ضروریات اور گھر سے باہر بے شمار لوگوں کی زندگی مسافرت کے صحرا میں ہے' تیسری طرف پولیس کی جارحیت اور اس کے تشدد کی دہشت ہے'۔۔یہ سیاسی رہنماؤں اور اصحاب اقتدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جذبات کا لحاظ رکھے،اور پولیس کی اس بے رحم جارحیت اور جبر و استبداد پر نوٹس لے،اسے ہدایت دے کہ اور سختی کے ساتھ حکم دے کہ وہ قانون کے نفاذ میں انسانیت اور اخلاق سے کام لے، مجبور عوام پر سفاکیت کے ذریعے دہشت پھیلانے سے باز آئے، تاکہ عوام اس کی جد وجہد اور اس کے اعلانات کو خاطر میں لائے بصورت دیگر ماضی کی طرح اس وقت بھی اس  طبقے کی آوازخطوں اور علاقوں میں صدا بصحر ثابت ہو کر رہ جائے گی۔۔۔

یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے'کہ مسلم قوم بھی ملکی اور حکومتی نظام کو صحیح طریقے سے فالو نہیں کرتی نہ ہی وہ حالات کی نزاکت اور وقت کی آواز کے ادراک پر آمادہ ہوتی ہے'
ملک کے ہنگامی صورت حال اور ہلاکت خیز و تباہ کن اور عالمی پیمانے پر قیامت کا سماں پیدا کرنے والی موجودہ وبا کے متعلق بھی اس نے عموماً سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، چنانچہ وہ علاقے جہاں غیر مسلموں کی آبادیاں ہیں وہاں سڑکیں ،دکانیں ،پبلک مقامات پر سناٹوں کی دھول اڑ رہی ہے'اس کے برعکس جو مسلم علاقے ہیں ہزار کوششوں کے باوجود بھی وہاں بدستور شاہراہیں ان کے ہنگاموں اور نقل وحرکت سے بھری ہوئی ہیں، 

حکومتی آرڈر اور انتظامیہ کے اعلانات کا تو کیا ذکر ملک کے ارباب علم اور اصحاب فضل رہنماؤں کی ہدایات اور ان کے فتاویٰ جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ عام مسلمان اپنے اپنے گھروں میں نمازیں ادا کریں،اکثر جگہوں پر سرے سے نظر انداز کر دیا گیا اور بدستور جمعہ وجماعت جاری رکھ کر انتہائی غیر ذمہ دارانہ ثبوت فراہم کیا گیا،آخر جب انتظامیہ سخت ہوئی، پولیس کی جارحانہ کارروائی ہوئی تب جاکر اس پر عمل ہوا،گویا یہ قوم بھی مار کھانے کے لئے اوراپنی عصمتوں کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی رسوا کرنے کی غرض سے پولیس کی اسی بربریت کا انتظار کررہی تھی کہ جب تشدد کا عمل اجسام پر ثابت ہوجائے تب قانو ن کا لحاظ کیا جائے گا، اس روئیے میں تبدیلی کی سخت ضرورت ہے، عام تباہی سے تحفظ کے لئے قوانین اور علماء کی ہدایات کے باوجود اپنی مرضی پر عمل یقینا جہاں قانون کی خلاف ورزی ہے'وہیں اپنی جان کے علاوہ قومی سلامتی کے حوالے سے بے بصیرتی اور بے شعوری کا بدترین نمونہ ہے، جس میں ملک کی انارکی کے ساتھ ساتھ اپنی بھی تباہی کا سامان ہے'۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
مسجد انوار شیواجی نگر ممبئی