Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, March 18, 2020

جسٹس گوگئی کی راجیہ سبھا میں نامزدگی: کیا انڈیا میں عدلیہ بھی پسپا ہو گئی؟بی بی سی اردو سروس کا تجزیہ۔

انڈیا کے صدر مملکت نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگئی کو راجیہ سبھا یعنی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کی رکنیت کے لیے نامزد کیا ہے۔ صدر نے ان کی نامزدگی اہم شخصیات کے زمرے میں کی ہے۔

نٸی دہلی /صداٸے وقت /نماٸندہ /١٨ مارچ ٢٠٢٠۔

==============================

رنجن گوگئی ملک کے پہلے ایسے چیف جسٹس ہیں جنھیں سبکدوشی کے چند مہینے بعد ہی پارلیمنٹ کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے مگر دوسری جانب ملک کی کئی اہم شخصیات نے عدلیہ کی غیر جانبداری اور آزادی کے مفاد میں ان سے یہ عہدہ قبول نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

جسٹس گوگئی گذشتہ سال 17 نومبر کو چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ سبکدوشی سے قبل انھوں نے کئی اہم مقدمات کے فیصلے کیے تھے جو بظاہر حکمراں جماعت کے نظریات کے مطابق تھے یا اس کے حق میں دیے گئے تھے۔

اپنی سبکدوشی سے چند ہی روز قبل انھوں نے ایودھیا کے مندر مسجد کے تنازعے کا فیصلہ سنایا تھا جو بظاہر ہندو مؤقف کے حق میں دیا گیا تھا۔

وہ فرانس سے رفال جنگی جہازوں کے سودے کی تحقیقات کے لیے داخل کی گئی درخواستوں کی سماعت کرنے والی اس بنچ میں بھی شامل تھے جس نے ان درخواستوں کو دو بار مسترد کیا۔

ان درخواستوں میں الزام لگایا گیا تھا کہ رفال سودے میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی گئی لیکن جسٹس گوگئی کی سربراہی والے بنچ نے ان عرضیوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ کہ اس سودے میں کسی تفتیش کی ضرورت نہیں ہے۔

اس فیصلے سے مودی حکومت کو زبردست سیاسی فائدہ ملا کیونکہ اپوزیشن نے مختلف دستاویزات کے ساتھ حکومت پر اس سودے میں کرپشن کا الزام لگا رکا رکھا تھا۔

انڈیا

جسٹس گوگئی کا تعلق آسام سے ہے۔ انھوں نے آسام میں شہریوں کے رجسٹر یعنی این آر سی کے عمل میں گہری دلچسپی لی اور این آر سی کی مکمل فہرست ‏عدالت عظمیٰ کی نگرانی میں تیار کی گئی۔

ان کی سربراہی میں ایک بنچ نے مسلمانوں میں تین طلاق کو جرم کے زمرے میں رکھے جانے کے قانون کو چیلنج کرنے والی درخواست کو مسترد کیا تھا۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خصوصی اختایارات دینے والی دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد ریاست میں انٹرنیٹ، فون، اور موبائل سروسز بند کرنے اور سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری سے متعلق کئی معاملات کی بھی انھوں نے شنوائی کی لیکن حکومتی اقدامات کے خلاف انھوں نے کوئی فوری فیصلے نہیں سنائے۔

جسٹس گوگئی وہی ہیں جنھوں نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے قبل جنوری 2018 میں سپریم کورٹ کے تین سینئر ججوں کے ساتھ ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس کے طرز عمل پر سوال اٹھایا تھا۔ ان ججوں نے اُس پریس کانفرنس میں اہم مقدمات کو دوسرے ججز کے بنچ کو نہ دینے کا خاص طور سے ذکر کیا تھا۔

ان ججوں میں جسٹس مدان بی لوکر بھی شامل تھے۔ انھوں نے چسٹس گوگئی کو راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیے جانے پر ایک اخبار کو دیے گئے اپنے ردعمل میں کہا ’ان کے بارے میں یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ انھیں حکومت کی طرف سے کچھ پیشکش ہو گی، اس لیے ان کی نامزدگی پر حیرت نہیں ہوئی لیکن جس بات پر حیرت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ انھیں یہ اتنی جلد مل گئی۔

اس قدم نے عدلیہ کی آزادی، غیر جانبداری اور ایمانداری کی نئی تشریح کی ہے۔ کیا جمہوریت کا آخری قلعہ بھی پسپا ہو چکا ہے؟

انڈیا کی تاریخ میں ایک سابق چیف جسٹس کو سبکدوشی کے چند مہینے کے اندر ایوان بالا کے لیے اس سے پہلے کبھی بھی نامزد نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل گوتم بھاٹیہ نے کہا ’جو پہلے ڈھکا چھپا تھا اب وہ ثبوت بن چکا ہے۔ ملک کی آزاد عدلیہ اب باضابطہ طور پر مر چکی ہے۔‘

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے اپنے عہدے کے دوران جسٹس گوگئی کے خلاف عدالت ‏عظمیٰ کی ایک اہلکار نے جنسی ہراسگی کا الزام بھی لگایا تھا مگر انھیں عدالت کی ایک کمیٹی نے کلین چٹ دے دیا تھا۔ ہراسگی کا الزام لگانے والی خاتون نے الزام لگایا تھا کہ کمیٹی کی تفتیش کے دوران انھیں وکیل کی سہولت نہیں دی گئی تھی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر دشینت دوے نے کہا ’راجیہ سبھا کے لیے ان کی نامزدگی واضح طور پر سیاسی نوعیت کی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ عدلیہ کو کس طرح کمزور کر دیا گیا ہے۔‘

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساق سینئر رہنما اور ایل کے اڈوانی کے قریبی ساتھی یشونت سنہا نے امید ظاہر کی ہے کہ جسٹس گوگئی اس پیشکش کو ٹھکرا دیں گے۔

انھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے ’میں امید کرتا ہوں کہ جسٹس گوگئی کے پاس راجیہ سبھا کی سیٹ کی پیشکش پر نہ کہنے کا اچھا سنس ہو گا۔ ورنہ عدلیہ کے وقار کو زبردست نقصان پہنچے گا۔‘

سوراج انڈیا پارٹی کے صدر یوگیندر یادو نے بی جے پی کے آنجہانی رہنما ارون جیٹلی کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا ’ریٹائرمنٹ سے پہلے کے فیصلے ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری عہدہ حاصل کرنے کی تمنا سے متاثر ہوتے ہیں۔‘

کانگریس پارٹی نے جسٹس گوگئی کی نامزدگی کو ملک کی جمہوریت اور اس کے سب سے متحرک فعال اور باوقار ادارے یعنی عدلیہ کی آزادی پر ’ایک گمبھیر حملہ‘ قرار دیا ہے۔

جسٹس گوگئی نے ایوان بالا کے لیے نامزد ہونے کے ایک روز بعد کہا ہے کہ وہ راجیہ سبھا کی رکنیت کا حلف لینے کے بعد یہ بتائیں گے کہ انھوں نے راجیہ سبھا کے لیے نامزدگی کیوں قبول کی۔