Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, March 1, 2020

طالبان امریکہ امن معاہدہ۔۔کون فتح یاب ہوا ؟۔۔۔ایک عمدہ تجزیہ۔

از/محمد عامر خاکوانی/صداٸے وقت ۔
============================= 
افغان طالبان اور امریکہ کے مابین امن معاہدہ ہوجانے کے بعد افغان مسئلے ختم نہیں ہوگئے، ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اس میں بہرحال کوئی شک نہیں کہ یہ معاہدہ اس اٹھارہ انیس سالہ جنگ کے خاتمے کے حوالے سے بہت اہم موڑ ہے۔ جس طرح ہر معاہدے میں ہوتا ہے، فطری طور پر اس بار بھی یہ سوال پیدا ہوا کہ کون سا فریق فاتح ہے ؟ کسے ایڈوانٹیج ملا اور کون گھاٹے میں رہا؟نائن الیون کے بعد افغانستان کے تبدیل شدہ منظرنامے کے تین چار بنیادی فریق یا سٹیک ہولڈر ہیں اور ایک دو ضمنی مگر اہم فریق۔افغانستان میں جاری جنگ افغان طالبان اور امریکہ کے مابین تھی، اس لئے بڑے دونوں کھلاڑی تو یہی ہیں۔ افغان حکومت بھی اہم فریق تھی کہ رسمی طور پر افغانستان کی حکومت اس کے پاس تھی۔ پاکستان اگرچہ ضمنی، مگر نہایت اہم فریق ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کے آنے کے بعد پاکستان کو بہت کچھ بھگتنا اور سہنا پڑا۔ بھارت جغرافیائی طور پر اس خطے کا حصہ نہیں، تاہم وہ بڑی کوشش کرکے افغان منظرنامے کا حصہ بنا تھا۔ پچھلے چند برسوں میں بھارت کی کاوشوں کا مرکز یہ نکتہ تھا کہ اسے بھی سٹیک ہولڈر مان لیا جائے۔ان تمام فریقوں کے نقطہ نظر سے اس معاہدے کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے طالبان اور امریکہ کولیتے ہیں۔ اس معاہدے کے سب سے بڑے بینیفشری یا فائدہ اٹھانے والے طالبان ہیں۔ امریکہ نے طالبان حکومت ختم کی، اس کے بعدجو سرکردہ طالبان کمانڈر یا جنگجو ہاتھ آئے وہ قیدی بنے ،کئی اہم لیڈروں کے سر کی باقاعدہ قیمت مقرر کی گئی جبکہ تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔جس سپر پاور اور حملہ آور فوج نے ایسا کیا، اب خود اسی نے بہت بڑا یوٹرن لیتے ہوئے ٹھیک ٹھاک قسم کی پسپائی اختیار کی ہے۔طالبان اب دہشت گرد تنظیم نہیں، اس کے اہم رہنمائوں کو امریکہ نے اپنی قید سے رہا کیا ، جبکہ کمانڈروں کی ہیڈ منی بھی ختم ہوگئی ۔امریکہ نے افغانستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد مسلسل کوشش کی کہ طالبان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سٹرکچر توڑ کر تنظیم کو ختم کر دیا جائے ۔ 
امریکی جرنیل اپنے تمام تر وسائل ، ٹیکنالوجی اورانٹیلی جنس ذرائع استعمال کرنے کے باوجود ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ طالبان نہ صرف موجود رہے بلکہ بتدریج انہوں نے افغانستان کے وسیع علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ، حتیٰ کہ امریکی ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرنے، سینکڑوں جانیں قربان اور ہزاروں فوجی زخمی، نفسیاتی مریض بنوانے کے بعد یہ سمجھ گئے کہ وہ افغانستان میں طالبان کو کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ چند سال پہلے تک امریکہ کو جب یہ مشورہ دیا جاتا کہ یہاں سوویت یونین ناکام ہوا، آپ کو بھی شکست ہوگی، اس لئے افغان جنگ میں مزید الجھنے اور دھنسنے کے بجائے باہر نکلنے کی راہ اپنائیں ، تب ایسے ہر مشورے کو امریکی جرنیل ، سی آئی اے اورسول قیادت سختی سے مسترد کر دیتی۔امریکی ایک طریقہ ناکام ہونے کے بعد دوسرے طریقے، نئی چال، نئے فارمولے کو آزماتے رہے۔ سب بری طرح ناکام ہوئے۔ طالبان کو شکست نہ دی جا سکی اور آخر کار امریکہ طالبان سے امن مذاکرات کرنے پر مجبور ہوگئے۔ امریکہ طالبان مذاکرات کی آٹھ دس سال سے کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ تب طالبان یہ بنیادی شرط عائد کرتے تھے کہ پہلے امریکی افواج مع نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں۔ طالبان نے پھراتنی لچک پیدا کر لی کہ چلیں کم از کم امریکی اپنی فوجیں نکالنے کا ٹائم فریم دے دیں، پھر بات چیت شروع ہوسکتی ہے۔ تب امریکی یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے واپسی کی تاریخ دے دی تو اس سے طالبان طاقتور ہوں گے اور افغان حکومت کمزور ہوجائے گی۔ حالات آج امریکہ کو اس نہج پر لے آئے کہ انہوں نے طالبان کی یہ شرط تسلیم کر لی ۔ طالبان امریکہ امن معاہدے کی بنیادی شرط یہی ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج سوا سال کے عرصے میں افغانستان سے چلی جائے گی۔ کہنے کو تو امریکیوں نے بھی طالبان سے ایک شرط منوائی ہے کہ وہ افغان سرزمین کسی تنظیم یا گروہ (القاعدہ وغیرہ کو)امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ یہ مگر امریکہ کی کوئی کامیابی نہیں۔اس لئے کہ طالبان بہت پہلے یہ طے کر چکے کہ القاعدہ کو انہوں نے افغانستان میں کھلی چھوٹ دے کر سخت غلطی کی تھی۔ ملاعمرنے اپنی زندگی میں یہ فیصلہ کر لیا تھا ۔ القاعدہ قیادت کو بھی اس سے آگاہ کر دیا تھاکہ مستقبل کے افغانستان میں ان کے لئے جگہ نہیں ہوگی۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد وہاں سے امریکی جو دستاویزات وغیرہ اٹھا کرلے گئے، وہاں سے اس بات کی تصدیق ہوئی۔ امریکی محقق اور مصنف سٹیو کول نے اپنی کتاب ڈائریکٹوریٹ ایس میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ اس لئے امریکیوں کی یہ شرط محض فیس سیونگ ہی ہے۔ اس اعتبار سے یہ طالبان کی فتح ہے، ایک بڑی، واضح کامیابی۔ فتح مبین۔ امریکی انہیں توڑنے، جھکانے ،شکست دینے، ختم کرنے میں ناکام رہے۔ وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ طالبان ختم ہوگئے، وہ ماضی کا ایک باب بن گئے ہیں… ہفتہ کی شام ان سب کو اپنے تجزیے غلط ہونے، اندازے الٹ جانے پر دل ہی دل میں سہی، شرمندگی تو محسوس ہوئی ہوگی۔ طالبان اپنی جگہ پرڈٹ کر کھڑے ہوئے اور بے شمار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود کھڑے رہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ تاریخ ہمیشہ جرات مندوں اور بلند حوصلہ لوگوں کا ساتھ دیتی ہے۔ امریکی اس اعتبار سے شکست خوردہ ہوئے کہ جن کی حکومت ختم کی تھی،جن سے انیس سال لڑتے رہے، انہی کے ساتھ بیٹھ کر امن معاہدہ کرنا پڑا۔ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ ایسی بے مقصد جنگ جس کا امریکہ کو کچھ فائدہ نہیں مل رہا تھا، اس کے ختم ہونے کے امکانات روشن ہوگئے۔ صدر ٹرمپ کو ا س کا کریڈٹ بہرحال جاتاہے۔ کہا جاتا ہے کہ صدر کینیڈی کے بعد ٹرمپ دوسرے امریکی صدر ہیں جو ماضی میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں رہے۔ وہ ایک آئوٹ سائیڈر تھے ، اسی وجہ سے انہوں نے جنگ کو ختم کرنے کا فیصلہ بھی کر ڈالا۔ اگرچیزیں ٹھیک طریقے سے آگے بڑھتی ہیں تو صدر ٹرمپ کو صدارتی انتخابات میں بہت فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ جو کچھ انہوں نے سوچا تھا، ویسے ہوا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور منصوبہ سازوں نے بے پناہ امریکی دبائو کے باوجود طالبان قیادت کے خلاف کارروائی نہیں کی، اہم کمانڈروں کو محفوظ رکھا اور کوئٹہ شوریٰ سمیت حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن نہیں کیا، اب وہ سب اقدامات درست ثابت ہوئے۔ پاکستان کی افغان طالبان کے حوالے سے پالیسی پر ہمارے لیفٹ کے عناصر، سیکولر، لبرل حلقے اور خاص کر انگریزی زبان میں لکھنے والے معروف تجزیہ نگارسخت تنقید کرتے تھے، یہ سب لوگ طالبان سے جان چھڑانے اور پہلے کرزئی، پھر اشرف غنی کی حکومت کے آگے سرنڈر ہوجانے کا مشورہ دیتے تھے، اب وہ سب غلط ثابت ہوئے۔ان کے تجزیے غیر متعلق اور تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن گئے۔ پاکستان چاہتا تھا کہ امن معاہدہ ہو، مگر اس میں اتنا وقت ضرور لگ جائے کہ ہمیںپاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا موقعہ مل جائے ، جبکہ معاہدہ کا ٹائم فریم وہ ہو جب امریکہ میں صدارتی انتخابات کے سلسلے میں پرائمریز کی ووٹنگ شروع ہوجائے۔ پاکستانی منصوبہ سازوں کا تجزیہ تھا کہ تب امریکی صدر ہر حال میں معاہدہ کامیاب بنانا چاہیں گے۔ ابھی تک تو سب کچھ اسی انداز میںہوا ہے۔ بھارت اس پورے منظرنامے میں شکست خوردہ ثابت ہوا۔ بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی، وہاں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لئے بہت محنت کی اور کئی افغان لیڈروں کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کئے۔ فیصلہ کن مرحلے میں بھارت کو دودھ میں گری مکھی کے مانند نکال کر باہر پھینک دیا گیا۔ اشرف غنی کی افغان حکومت نے سرتوڑ کوشش کی کہ امریکہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہ کرے، افغان حکومت کو یہ کام کرنے دے، اگر مذاکرات ہوں تب انہیں تیسرے فریق کے طور پر شامل کیا جائے۔ طالبان نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ طالبان امریکہ امن معاہد ہ ہوجانے سے ایشو ختم نہیں ہوگیا۔ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے، انگریزی محاورے کے مطابق کئی اگر مگر ifs and buts ابھی موجود ہیں۔اب طالبان کے افغان حکومت سے مذاکرات ہونے ہیں، ادھر افغان حکومت کا بھی ابھی تک تعین نہیں ہورہا۔ صدارتی انتخابات کے رسمی نتیجے کے مطابق اشرف غنی صدر ہیں جبکہ عبداللہ عبداللہ، رشید دوستم وغیرہ نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا۔ دیکھنا ہوگا کہ یہ مذاکرات کس انداز میں آگے بڑھتے ہیں؟ خطرہ موجود ہے کہ کہیں افغانستان میں ماضی کی طرح خانہ جنگی شروع نہ ہوجائے۔ اگرچہ اس بار امریکی خانہ جنگی نہیں ہونے دیں گے کہ ان کے کچھ مفادات افغانستان سے جڑے ہیں۔وہ اپنی کسی نہ کسی شکل میں موجودگی رکھنا چاہتے ہیں، خانہ جنگی ہوئی تو یہ نہیں ہوپائے گا۔ طالبان نے بھی ماضی سے سبق سیکھا ہے، وہ بھی اس بار اپنے مخالفوں کوکسی حد تک اکاموڈیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں غیر پشتون آبادیوں (تاجک، ازبک، ہزارہ) کو بھی اب پہلے سے زیادہ جگہ دینا ہوگی۔ یہ سب کچھ اگلے چند ماہ میں ہوگا۔ بہترین مشورہ یہ ہے کہ اچھی امیدیں رکھیں مگرمنفی نتیجے کے لئے تیار رہیں۔ آج کے امن معاہدے میں البتہ طالبان کی جیت ہوئی ہے۔ انہیں اس فتح کی خوشی منانے کا حق حاصل ہے۔ پاکستان بھی اطمینان کا سانس لے سکتا ہے کہ افغانستان سے عرصے بعد اچھی خبر آئی۔