Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 4, 2020

معروف مزاحیہ شاعر اسرار جامعی انتقال کر گئے، آج بعد نماز عصر بٹلہ ہاؤس قبرستان میں ہو گی تدفین.

اسرار جامعی پچھلے ایک طویل عرصے سے صاحب فراش تھے اور ان کا زیادہ تر وقت اسپتال اور گھر کا فاصلہ طے کرنے میں گذرتا تھا۔
نئی دہلی۔/صداٸے وقت /ذراٸع /4 اپریل 2020.
==============================
 ہندوستان کے طنز و مزاح کے مشہور شاعر اور پوسٹ کارڈ  بم کے نام سے مشہور علامہ اسرار جامعی کا آج صبح ساڑھے پانچ بجے انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی عمر تقریباً 82 سال تھی۔ وہ طویل عرصے سے علیل تھے اور ان کا علاج یہاں کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں چل رہا تھا۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔
ذرائع کے مطابق ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی اور انہوں نے کرائے کے ایک کمرے میں آخری سانس لی۔ آج بعد نماز عصر بٹلہ ہاؤس قبرستان میں تدفین ہوگی۔ وہ دہلی میں اکیلے رہتے تھے۔
ان کا تعلق پٹنہ سے تھا۔ وہ صاحب ثروت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ذرائع کے مطابق ان کا پٹنہ میں کافی ہاؤس تھا جس پر ان کے گھر والوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ وہ ہمیشہ دہلی میں رہتے تھے۔ انہوں نے پٹنہ سے ’چٹنی‘ نام کا اخبار جاری کیا تھا جو طنز و مزاح پر مشتمل تھا۔ طنزو مزاح ان کے روم روم میں پیوست تھا۔ وہ ہمیشہ اس میں ڈوبے رہتے تھے۔
دہلی میں آنے کے بعد انہوں نے ’پوسٹ مارٹم‘ نامی اخبار جاری کیا تھا۔ جس کے بقول ان کے چیپ ایڈیٹر (چیف ایڈیٹر) وہی تھے۔ وہ ادبی حلقوں کے جان تھے۔ ’دہلی نئی پرانی دیکھی، کالی چٹی صورت دیکھی‘ مزاحیہ نظم کے ذریعہ انہوں نے جو دہلی کی منظر کشی کی تھی وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ ان کا پوسٹ کارڈ بم بہت مشہور تھا۔ جن سے بھی شکایت ہوتی وہ ان کے نام پوسٹ کارڈ بم سیکڑوں کی تعداد میں روانہ کردیتے تھے۔
علامہ اسرار جامعی تنہائی کے شکار تھے۔ لوگوں نے ملنا جلنا بند کردیا تھا۔ کچھ لوگ تھے جو ان کی دیکھ بھال کرتے تھے اور ان کی خبر خیریت لیتے رہتے تھے۔ سچے اردو کے خادم کی ناقدری کی مثال تھے۔ جھوٹی موت کی خبر کی بنیاد پر ان کی پنشن بند کردی گئی تھی جسے دوبارہ جاری کروانے کے لئے ان کو مہینوں دوڑ بھاگ کرنی پڑی تھی۔
اردو کے سینئر اور معروف صحافی معصوم مراد آبادی اسرار جامعی کے انتقال پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے اپنی فیس بک وال پر لکھتے ہیں’’یوں تو اسرار جامعی کے انتقال کی افواہ کئی بار اڑی لیکن وہ بڑے سخت جان تھے کہ ہربار خود ہی اس کی تردید کرنے کے لئے نمودار ہوجاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہ خبر درست ہے اور ان کا جنازہ دہلی کے اوکھلا علاقے میں اس چھوٹے سے کمرے میں رکھا ہوا ہے جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام بڑی بے بسی اور بے کسی میں گزارے۔ اسرار جامعی ہماری سماجی بے حسی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے‘‘۔