Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 17, 2020

خط ‏بنام ‏مدیر ‏روزنامہ ‏انقلاب۔۔۔

از/ اشھد جمال ندوی /صداٸے وقت۔/17 اپریل 200
==============================
مکرمی!
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آج آپ کے اخبار نے تو ہلا کر رکھ دیا۔خاص طور سے جسٹس مارکنڈے کاٹجو،جناب اے رحمن اور آپ کے ادارتی تجزیہ "موضوع گفتگو" نے۔ آپ نے ایک بدیہی حقیقت کو آشکار کیا ہے،جو آپ کے قلم کی خاصیت ہے اور برابر کرتے رہتے ہیں۔ مگر جناب اے رحمان صاحب نے مابعد کرونا کے حالات اور نئی دنیا کی جو پیشن گوئی کی ہے،بڑی ہیبت ناک ہے۔ حالات بظاہر اسی رخ پر جاتے نظر آرہے ہیں۔کئی بڑے فلاسفر اور مستقبلیات میں دلچسپی رکھنے والے اسکالرز کچھ عرصہ سے  اس جانب توجہ دلارہے ہیں۔اس نظریہ کو اگر  مان لیا جائے کہ دنیا کا نقشہ ایک بار پھر تبدیل ہونے جارہا ہے۔مضمون نگار کے تجزیہ کے مطابق اس نئی دنیا میں ظالموں کا ہی پھر بول بالا رہیگا۔قوت کا محور بدل جانے کے باوجود نظام دنیا ظالم وقاہر پنجوں میں ہی برقرار رہیگا۔ہائے یہ انسانیت پر کتنا بڑا ظلم ہوگا۔ایام کا الٹ پھیر کرنے والا ، کائنات کا خالق مالک ایک بار پھر انھیں لوگوں کو نظام پکڑا دے گا جو بلاخوف اس کی حاکمیت کو،اس کے قانون کو اور اس کی دستگیری کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔ان کے ہاتھ میں یہ نظام کیا صرف  اس وجہ سے دے دیا جائے گا کہ معیشت،معاشرت،سیاست،علوم وفنون اختراعات وایجادات میں وہ فائق ہیں۔ رب  کے سامنے ہر دم  سر بسجود رھنے والے،  اس کا شکر بجا لانے والے،اس کی حاکمیت کو جلوہ فگن دیکھنے کی آرزو رکھنے والے  اس وجہ سے پیچھے رہ جائیں گے کہ وہ دنیا چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ہائے یہ کتنی بڑی محرومی ہے۔  امت کے وہ جانباز کہاں چلے گئے جو ستاروں پر کمند ڈالتے تھے۔تاریخ کے اس اہم موڑ پر انھیں اپنا دعویٰ تو پیش کرنا چاہیے۔
جسٹس کاٹجو صاحب نے"خوفناک مستقبل ہندوستانی مسلمانوں کا منتظر"کی ہیڈنگ لگا کر اس اندیشے کو مزید تقویت دے دی،انھوں نے حالیہ واقعات کا  تجزیہ کرکے جو نتیجہ اخذ کیا ہے،وہ مبنی بر حقیقت ہے۔حالات اس سے بھی زیادہ سنگین ہیں جو مضمون میں قلمبند ہوسکے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک اور دنیا کی بدلتی صورتحال میں قرآن وسنت کی حامل امت کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔خاموشی سے سپر ڈال دینے کا وقت آگیا ہے ،یا اس بدلتی دنیا میں اپنا کردار تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔دنیا کی اس اتھل پتھل میں کبھی کبھار امید کی کرنیں بھی کوند جاتی ہیں۔یاد کیجئے پریشانی کی حالت میں چینی صدر کا مساجد میں جانا،امریکی پارلیمنٹ میں کلام الٰہی کی قرآت پر بشمول صدر پورے ایوان کا سر جھکانا ،اسپین کے میناروں سےاذان کی صدا کا بلند ہونا،کیا یہ غیر معمولی واقعات ہیں ؟ نہیں ۔ یہ اللہ کی بالادستی کے سامنے قلوب کے مائل ہونے کے مظاہر ہیں۔ان حالا ت میں حاملین قرآن وسنت کو بیدار ہونے کی ضرورت یے ۔قران وسنت کو  تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ پیش کرنے کا  یہ بہترین موقع ہے۔بلکہ شاید آخری مہلت ہے۔
آپ باشعور مدیر ہیں۔ ایسے مواقع پر اکثر آپ قائدین ملت کو جھنجھوڑ تے رہتے ہیں ،خدارا کچھ ایسے مضامین لائیےجسمیں قرآن وسنت کا علم لے کر میدان عمل میں آنے کی ترغیب دی جائے۔اب صرف دعویٰ سے کام چلنے والا نہیں ہےکہ قرآن وسنت میں زمانہ کے ساتھ چلنےصلاحیت ہے۔بلکہ نئی دنیا کی تشکیل میں قرآن وسنت کا موقف مدلل انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے اگر ہم لوگ اب بھی نہ جاگے تو تبدیلی کا پہیا رکنے والا نہیں ہے۔ زمانہ اپنی چال چل جائے گا اورمنبر ومحراب کی گونج تاریخ کے ملبے میں دفن ہو جایے گی۔اللہ ہمارا حامی وناصر ہو آمین
اشھد جمال ندوی
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
17/ اپریل 20