Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 6, 2020

اچھوت بنانے کی مہم۔۔۔قیادت سے محروم امت بے چین

صداٸے وقت /ماخوذ۔
==============================
کچھ انہیں باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 
جو کام برسوں سے ہندتوا نواز تنظیموں سے وابستہ لوگ کرنے میں مصروف تھے، وہ آج کورونا وائرس کے دور میں مکمل ہوگیا۔ تبلیغی جماعت کو درمیان میں رکھ کر میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف زہریلا اور یکطرفہ پروپیگنڈہ چلایاگیا، ان کو سماج سے بالکل کنارے لگانے کی کوشش کی گئی، ان کی جاہل، سماج کیلئے دشمن، ملک مخالف ہونے کی شبیہ بنائی گئی۔ پہلے تبلیغی جماعت پر کورونا جہاد کرنے، کورونا کو پھیلانے کا الزام گڑھاگیا،اس کے درمیان میں مسلمانوں کے خلاف بے تحاشہ جھوٹ پھیلائے گئے، اس کے بعد اب پولیس پر اورڈاکٹروں پر حملہ کرنے، اسپتال میں نرسوں سے بدتمیزی کرنے، تھوکنے، سبزی اور پھلوں کو بیچنے کے دوران ٹھیلہ پرجوٹا کرنے جیسے کئی ایشو کو سرخیوں میں رکھ کر خوب بحث کی گئی۔ 
ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج اکثریتی طبقہ میں مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت سے پھیل گئی ہے۔ ان کو ایک حاشیہ کا غلیظ شہری سمجھا جانے لگا ہے۔ اس صورت حال سے امت میں بے انتہا بے چینی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ بغیر تحقیق کے یکطرفہ خبریں چلائے جانے پر کوئی پوچھنے والا تک نہیں ہے۔ ہمارے ووٹوں سے حکومت کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچنے والے، ملک اورریاستوں پر راج کرنے والے سے لے کر تمام نام نہاد سیکولر رہنما سب خاموش ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے قائدین میں سے بھی کوئی سامنے آکر حق بولنے والا نہیں ہے۔ کوئی مضبوط آواز میں یہ تک کہنےوالا تک نہیں ہے کہ بغیر سر پیر کے اس طرح جھوٹا پروپیگنڈہ کرنا اور چھوٹی خبریں پھیلانا ملک کیلئے مناسب نہیں ہے۔ایسے وقت میں ضرورت تو یہ تھی کہ حکومت خود ایسی چیزوں کا نوٹس لیتی، اورمیڈیا کےان باتوں کی تردید کرتی۔ ساتھ ہی عدالتوں کو نوٹس لینا چاہئے تھا کہ اس طرح سماج کے ایک بڑے طبقہ کے خلاف نفرت انگیز مہم کیوں چلائی جا رہی ہے۔ لیکن اب ایسی امیدیں مفقود ہیں۔
  
سوال ہے کہ کیا امت اب پوری طرح سے مضبوط قیادت سے محروم ہو گئی ہے۔ اب یہ بالکل بے سہارا چھوڑ دی گئی ہے۔ ایسے حالات میں امت کا قیادت سے محروم ہونا بہت ہی المناک ہے۔قائدین کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں میں جب سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کی باری آئے گی تو اس نفرت کو پوری طرح سے بھنا نے کی کوشش ہوگی۔ اورہماری آواز پر اب کوئی کان تک دھرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ ایسی حالت میں قائدین کو اخلاص کے ساتھ کچھ سوچنے اورلائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔