Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, April 7, 2020

تحریک اسلامی کا فکرمند سپاہی اور مخلص دربان رخصت ہوا۔

از/سکندر علی اصلاحی/ صداٸے وقت /٨ اپریل ٢٠٢٠
==============================
کل من علیھا فان  ۔ جناب محترم مولانا عبدالعلی خان صاحب موضع بڑھڑیا نزد سنجر پور ضلع اعظم گڑھ رکن جماعت اسلامی ہند کا اج رات تقریبا ساڑھےبارہ بجے  12.30سے ذرا پہلے ( مورخہ 7/ اپریل  2020 ) انتقال ہوگیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون  ۔
 ان کو مرحوم کہتے ہوے کلیجہ حلق کو ارہا ہے ۔دل کسی طرح یقین کرنے پر راضی نہیں ہے مگر حقیقت تو بہر حال حقیقت ہے ۔تسلیم کرنا ہی ہوگا ۔ابھی کل صبح ہی میں بات ہویی تھی ۔یوں تو اکثر موباییل پر بات ہوا کرتی تھی ۔ مگر نا معلوم کیوں گزشتہ تین روز سے مستقل بعد نماز فجر فون کر رہے تھے اور ہر دن تقریبا 30   , 35  منٹ تک باتیں کی ۔ ذاتی خیر و عافیت سے لے کر امت کی مشکلات ,  ان کی اصلاح احوال ,   جماعت اسلامی ہند کے معاملات و مسایل اور اس کی راہ کے چیلنجز ,  حال و مستقبل کی فکرمندی اور عالمی سطح پر امت مسلمہ کی مجموعی صورت حال پر بے چینی کی کیفیت کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ۔اصلاح و احیاء اور بیداری و سربلندی کے لیے منصوبہ اور اس سلسلے کی سرگرمیوں پر اظہار خیال کرتے ۔ کچھ مایوسی کی بات کرتے تو میں ان کے سامنے حوصلہ افزا اور روشن پہلووں کو پیش کرتا جس سے بہت خوش ہوجاتے  ۔ہنستے اور اپنے مخصوص انداز میں کہتے   نا,   کاہو ,  سچ ۔ 
خوبرو اور بہترین صحت و تندرستی  کے مالک تھے ۔مرحلہ وار مختلف حادثات سے رفتہ رفتہ متاثر ہوتے گیے اور وقت کے ساتھ ساتھ اب بوڑھے ہوچکے تھے ۔ ورنہ ان کا جسم گٹھا ہوا تھا ۔ پہلے ان کی جواں سال بڑی بہو کا انتقال ہوا جو مولانا محمد سلمان ندوی مرحوم سابق ایڈیٹر دعوت و الدعوہ  ورکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند کی بیٹی تھیں ۔ اس سے انہیں شدید صدمہ پہنچا تھا ۔ عمر دراز  بوڑھی والدہ کے انتقال سے رنجیدہ تھے ۔ اپنی والدہ  سے بڑی محبت کرتے اور ان کی بڑی فکر رکھتے ۔ ان کو کویی تکلیف نہیں ہونے دیتے ۔ وہ بھی اپنی عمر کے اخری مرحلے تک گھر گرہستی کے کاموں میں لگی رہیں اور بالخصوص  اپنے بیٹے کے کھانے پینے کا بڑا خیال رکھتیں ۔ میں نے متعدد بار دیکھا کہ کھانے کا وقت ہوا اور وہ اواز دینے لگتیں ۔ ابھی علی نے کھانا نہیں کھایا  بلاو  کھانا کھالے ۔ بہت محبت کرتی تھیں ۔ اہلیہ کا انتقال ہوا تو ان کی ہمت ٹوٹ گیی ۔ مگر پھر بہت جلد سنبھل گیے ۔  ابھی سال بھر پہلے کسی موقع پر میں نے ان کا ذکر کردیا ۔پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ کہا تمہاری بڑی امی نے ہر طرح کے سرد وگرم حالات میں پورے پچاس سال میرا ساتھ نبھایا اور  مشکل دور میں میری پشت پناہی کی۔ سارے غم انہوں نے سہہ لیا مگر ابھی تقریبا نو ماہ قبل ان کے منجھلے بیٹے محمد شیبہ خان فلاحی کے پچاس سال کی عمر میں اچانک انتقال نے ان کو بالکل نڈھال کردیا تھا ۔ حد درجہ صدمہ تھا ۔ جس کیفیت اور لاچاری کے عالم میں انہوں نے کرسی پر بیٹھ کر بیٹے کی نماز جنازہ پڑھایی اور جس طرح کے کلمات کے ساتھ تدفین کے لیے رخصت کیا اس کی یاد جب اتی ہے تو سینے پر دباو بڑھ جاتا ہے   ۔ وہ کہہ رہے تھے  زید ,  ارقم  لے جاو  لے جاو اپنے بھایی کو لے جاو اللہ کی امانت تھی ۔ اللہ کے سپرد کر او ۔میرا , میرا بیٹا بڑا ہونہار تھا ۔ کسی سے اپنے دل کا غم بتا نہیں سکا ۔ جاو بیٹا جاو اللہ تمہارے درجات بلند کرے ۔انشاء اللہ جنت میں ملاقات ہوگی  ۔  وہ تو پورے وقار اور اطمینان کے ساتھ بغیر کسی گریہ وزاری کے یہ الفاظ کہہ رہے تھے- مگر سننے والے , انکھوں سے انسو رواں  , عجیب کیفیت سے گزر رہے تھے ۔  اخر عمر میں تنہا سے ہو کر رہ گیے تھے ۔دوسال پہلے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گیی تھی جس سے وہ اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کے محتاج ہوگیے تھے ۔ کہیں بھی انے جانے سے معذور ہو چکے تھے۔ کویی غمگسار نہ رہ گیا تھا جو ان کی تنہایی کو دور کرتا ۔ ذرا ذرا کام کے لیے کیی کیی بار اواز دیتے اور جلدی کویی سننے والا نہ تھا ۔ باقی تین بیٹے ہیں جو اپنی معاشی ذمہ داریوں کے سبب گھر سے دور رہنے پر مجبور ہیں ۔ جب بیٹو ں اور پوتوں میں سے کویی گھر اجاتا تو ان کو بڑی راحت ملتی ۔  وہ اپنے تمام بیٹوں  پوتوں اور پوتیوں کو ٹوٹ کر چاہتے تھے ۔ ہر کسی سے اس طرح ملتے ملتے اور توجہ دیتے کہ ہر فرد سمجھتا کہ سب سے زیادہ مجھے ہی چاہتے ہیں ۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ تھا ۔ ان کی اپنی کویی بیٹی نہیں ہیں ۔ میری اہلیہ جو ان کی نگرانی میں رہیں ہیں بیٹی کی طرح مانتے ۔ہر لمحہ ان کے لیےفکر مند رہتے ۔ تحفے تحایف بھیجواتے رہتے ۔جب تک طاقت رہی اکثر ملاقات کے لیے اتے اور فون سے تو برابر خیریت معلوم کرتے رہتے ۔اج وہ ہمیشہ کے لیے ابدی و دایمی منزل کی طرف رخت سفر بانھ چکے ہیں ۔میری اہلیہ کہہ رہی ہیں کہ اب وہ یتیم ہوگییں ۔
میرا گزشتہ بیس سال سے معمول تھا کہ جب بھی سراے میر جانا ہوتا  بڑھڑیا صرف ان سے ملاقات کے لیےضرور حاضر ہوتا خواہ ایک ادھ گھنٹہ ہی کے لیے سہی ۔وہ بھی میرا انتظار کرتے اور ملنے پر شفقت و محبت سے پیش اتے اور معانقہ ضرور کرتے ۔جب تک سفر کرنے اور چلنے پھرنے کے لایق رہے وہ اکثر لکھنؤ اتے ۔ جہاں ان کے بہت سارے عزیز و اقارب کے علاوہ بالخصوص ان کی بڑی بہن رہتی تھیں جن کا تین ماہ پہلے انتقال ہوا ہے ۔ 
میرا ان سے تعلق میرے شعور سے پہلے سے ہے ۔جب سے ہوش سنبھالا تب سے ان کو اپنے والد صاحب مرحوم کی دکان پر اتے جاتے دیکھا ۔ جو سراے میر میں حکیم شبیر والی گلی میں پرانی مچھلی مارکیٹ محمدی مسجد کے قریب ہواکرتی تھی ۔حاجی مطلوب احمد صاحب مرحوم رکن جماعت کی دکان ( جو تحریک اور علاقہ کے تمام معزز و سربر اوردہ افراد کا علمی و سماجی مرکز تھا ) سےاٹھ کر مسجد کو جانے والے تمام لوگ اکثر میرے والد صاحب کی دکان پر ٹھہرتے ۔ ملاقاتیں ہوتی اور یہ سلسلہ ایک عرصہ تک قایم رہا ۔ ان میں حاجی مطلوب احمد صاحب سراۓ میر ۔ماسٹر اشتیاق احمد صاحب۔ دیسی بیڑی گھر سراۓ میر ، حاجی طیب صاحب مرحوم کرولی،مولانا بدرالدین اصلاحی مرحوم نیاؤج ،جناب عزیزالدین عرف اجو خاں مرحوم ۔جناب ابرار خاں مرحوم اور بہت سارے معزز حضرات میں مولانا عبدالعلی خاں صاحب بھی ہوتے۔اس وقت بہت سارے نام اور چہرے یاد آ رہے ہیں جو تقریبا ایک ایک کر کے اپنے رب کے حضور پہنچ چکے ہیں۔ان لوگوں میں ڈاکٹر مظفر احسن اصلاحی صاحب مرحوم ،مولانا احتشام الدین اصلاحی مرحوم، مولانا غالب احسن اصلاحی مرحوم،ماسٹر ایثار احمد صاحب ، ماسٹر ابوالخیر صاحب کھریواں , جناب برکت علی خان مرحوم سراۓ میر , جناب امام الدین صاحب اایل مشین والے اور دیگر حضرات۔
مولانا عبدالعلی خاں مرحوم جماعت اسلامی کے بے لوث ،مخلص اور ہمہ وقت کمر بستہ سپاہی تھے۔ شاید ہی کوئ اجتماع ہو جس میں وہ غیر حاضر رہے ہوں۔ میں نے اپنے ہوش میں سب سے پہلے پھریہا میں غالبا ایمرجنسی 1978 کے بعد منعقد ہونے والے  ماہانہ اجتماع میں شرکت کی ہے۔اس کے بعد بندی گھاٹ، محمدآباد،اور اعظم گڑھ کے تمام مشہور و معروف گاؤں محمد پور , بسہم, انوک ,زمین رسول پور, چاندپٹی ,کوہنڈہ , ماہل , لاہی ڈیہ بازار اور سیدھا سلطان پور وغیرہ  میں اجتماع ہوا کرتا اور میں اکثر حاجی مطلوب احمد صاحب کی گاڑی میں ان کے ہمراہ جایا کرتا۔ مولانااحمد محمود اصلاحی مرحوم اور مولانا بشیر احمد اصلاحی صاحب مدظلہ بھی ہوتے۔اجتماع میں رفقاء و احباب جماعت کی ملاقات کا منظر دیدنی ہوتا تھا۔ ایک دوسرے سے اس طرح چہک کر , لہک کر ملتے گویا عید کا دن ہو یا ایسا معلوم ہوتا جیسے ایک مدت دراز کے بعد ملے ہوں۔ حکیم محمد ایوب صاحب بلریاگنج، ماسٹر امتیاز احمد صاحب محمد پور، ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب محمد پور ، زین العابدین صاحب گنگا گودام پور، ماسٹر عبدالحمید صاحب پانڈے مرحوم لہبریا، زبیر احمد صاحب پھریہا ، منشی محمدانور صاحب بلریا گنج ، مولانا محمد عیسی قاسمی صاحب مرحوم بلریا گنج ، ماسٹر عبدالحکیم صاحب سراۓ میر ، حکیم فیاض احمد اصلاحی صاحب ماہل، ڈاکٹر نظام الدین صاحب ماہل، جناب الطاف احمد صاحب سیدھا سلطان پور ،  مولوی جمال الدین صاحب ,جناب مولوی سلطان احمد صاحب مرحوم لاہی ڈیہہ بازار ,جناب عبدالعلی خان اور بے شمار لوگ ۔ہر ایک جذبہ شوق و محبت سے لبریز ، تمام چہروں پر خوشی و محبت کی کرنیں ، عجیب لگن ،ولولہ اور حوصلہ ہوا کرتا تھا۔
آخری نشست میں جب آیندہ اجتماع کا مقام طے ہو رہا ہوتا , تو مولانا عبدالعلی صاحب ابھی سوچ رہے ہوتےکہ اپنے گاؤں کا نام پیش کریں، جب تک مولوی سلطان احمد صاحب لاہی ڈیہہ بازی مار چکے ہوتے۔ بڈھریا میں متعدد بار اجتماع ہوا مگر لاہی ڈیہہ میں تو بے شمار اجتماع ہوا کرتے۔ ان دونوں حضرات نے اعلان کر رکھا تھا کہ اگر کوئ نہیں تیار ہو تو اجتماع ہمارے گاؤں میں رکھ لیجۓ اور یہی ہوتا۔ اس دور کا ضلع اعظم گڑھ کا   ماہانہ اجتماع اس اہتمام خاطر مدارات کے ساتھ ہوا کرتا تھا جیسے کسی کی بیٹی کی شادی ہو۔ قبل مغرب لوگ پہنچتے پانی پلانے کا اہتمام ہوتا ۔ رات کے کھانے  اور صبح کے ناشتے پر بڑی توجہ دی جاتی جو عموما گاؤں والوں کی طرف سے دعوت ہوا کرتی تھی ۔ قیام گاہ پر توجہ ہوتی ۔ خطاب عام کی جگہ پر خوب تیاریاں کی جاتیں۔ اکثر عشاء سے پہلے تک یا عشاء کے بعد رات گیارہ بجے تک خطاب عام ہوتا۔مولانا احمد محمود اصلاحی صاحب کے مفصل خطاب کی دھوم ہوا کرتی تھی۔ جب کبھی مولانا نظام الدین اصلاحی صاحب آ جاتے تو خطاب عام میں اور جان پیدا ہو جاتی۔ عبدالعلی خاں صاحب اسٹیج کے آدمی نہیں تھے مگر جب کبھی درس قرآن دینے یا کسی مذاکرہ میں اپنی بات پیش کرنے کا موقع ہوتا تو بڑی تیاری کرتے ۔ مطالعہ کا چسکا تھا ۔ نئ نئ کتابیں حاصل کرنے اور انھیں پڑھنے کا شوق تھا۔ زندگی نو، تحقیقات اسلامی اور دعوت اخبار بہت پابندی سے ایک ایک سطر پڑھتے۔ انتظامی صلاحیت بھی خوب تھی ایک عرصہ تک مقامی امیر رہے۔ علاقہ میں جماعت کی توسیع و استحکام کے لۓ بڑے سر گرم اور فکرمند رہتے۔اپنے عزیز و اقارب اور متعلقین سے بڑے اہتمام سے بیت  المال کے لۓ خصوصی تعاون و زکوة کی رقم حاصل کرتے اور بڑی فراخ دلی سے ضرورت مندوں کی مدد کرتے۔ جماعت کا جو ٹارگٹ ہوتا وہ تو ہمیشہ پورا کرتے اس کے علاوہ بھی ہر موقع  پر جب بھی ضرورت ہوتی ، مالی تعاون پیش کرنے میں صف اول میں ہوتے ۔ اپنے معمول اور وقت کے پابند تھے۔ طبیعت میں نفاست تھی۔ صاف ستھرا پہننے اور اچھے سےاچھا کھانے کا شوق تھا لیکن بلا کی سادگی بھی تھی۔جب کالی شیروانی اور اونچی گرم ٹوپی پہن کر چلتے تو خوب جچتے۔ چال ڈھال اور گفتگو میں وقار ہوتا۔ ایک خاص رفتار، سائکل سے چلنے کی رفتار بھی جیسے متعین ہوتی ۔اکثر جمعہ کے دن بڈھریا اور اطراف میں ہفتہ وار اجتماع ہوتا۔چھاؤں، داؤد پور، خداداد پور ، سنجر پور، پھریہا  ،محمودپور بکیا،کجیاری، کھٹہنہ جیسے مقامات پر مولانا عبدالجواد اصلاحی صاحب  اور مولانا عبدالعلی خاں صاحب دونوں میں سے کسی کا خطبہ جمعہ ہوتا اور بعد نماز جمعہ درس قرآن ہوتا ۔ مولانا مرحوم بہت اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر ، باوقار انداز میں گفتگو کرتے،جب میں مدرسةالاصلاح میں عربی سوم میں پہنچا تو اکثر مجھ سے ہفتہ واراجتماع میں خطبہ جمعہ دینے یا درس دینے کے لۓ کہتے۔ بعد میں تعریف بھی کرتے اور کمیوں کی نشاندہی بھی کرتے۔ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جب کبھی کسی کوتاہی یا خامی پر بات کرتے تو معمول سے زیادہ مسکراتے ہوۓ کرتے۔ زمین دار تھے،خان تھے اس لۓ غصہ بھی آتا تھا،ڈانٹتے بھی تھے مگر پھر ایسا سینے سے لگاتے کہ ساری کبیدگی ختم ہو جاتی۔
قرآن مجید کی تلاوت , ترجمہ و تفسیر خوانی،نمازوں کی پابندی اور نماز تہجد کے اہتمام میں ہمیشہ چاق و چوبند رہے۔ پنج وقتہ نماز اول وقت میں پڑھتے،حالات جیسے بھی ہوں سفر میں حضر میں تہجد کی پابندی کرتے۔  ایک عرصہ سے ماہ رمضان کے اخری عشرہ میں پابندی سے اعتکاف میں ببٹھتے ۔نامعلوم پہلے جماعت اسلامی کے ارکان کی کس طرح تربیت ہوا کرتی تھی، اکثر لوگ جن سے میری ملاقات رہی وہ فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد کا اہتمام کرتے نظر آتے۔  حکیم فیاض احمد صاحب، ماسٹر عبدالحمید صاحب، مولانا عبدالحسیب اصلاحی صاحب، مولانا عنایت اللہ سبحانی، مولانا عبدالعلیم اصلاحی، اور علی گڑھ میں مولانا سید جلال الدین عمری، مرکز میں مولانا سراج الحسن صاحب , مولانا عبدالرشید صاحب, سید محمد جعفرصاحب،سابق قیم جماعت (اب تو وہ نائب امیر جماعت ہیں مگر ان کی شخصیت کے ساتھ قیم جماعت کا لفظ جڑا ہوا تھا)۔لکھنؤ میں جناب سعید اختر صاحب سابق سکریٹری حلقہ اور جناب رحمت الہی صاحب۔ خیال ہوتا ہے،بار بار خیال ہوتا ہے _یا اللہ کس طرح ان کی تربیت ہوئ ہے۔کیسے یہ لوگ اس قدر نمازوں کے عاشق ہیں۔ اپنے حال پر بڑی شرم آتی ہے۔بچپن ہی سے ایسے لوگوں کی صحبت نصیب ہوئ مگر کیا بات ہے کہ وہ بات نہیں پیدا ہوتی۔چکنے گھڑے کے مانند، کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔ یا اللہ مجھے بھی قرآن مجید کی تلاوت، نمازوں کی پابندی اور قیام لیل کی توفیق عطا فرما۔ غالبا جماعت کے افراد پر مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم کا اثر ہو گا ۔
مولانا عبدالعلی خاں مرحوم سے میرا قریبی تعلق رہاہے۔ میرے گھر کے ایک فرد کی طرح ہر موقع پر وہ میرے معاملات میں شریک رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہوں کہ وہ  میرے مربی اور سرپرست تھے تو بالکل حقیقت ہے۔بہت ساری باتیں اور واقعات ہیں بالخصوص میرے نکاح کے تعلق سے ان کا نام اور ان کے کردار تاحیات روشن رہیں گے۔ان کا دروازہ نومسلموں کی پناہ گاہ تھا۔متعدد لوگوں کو انہوں نے ٹھکانہ دیا۔تربیت کی، ان کی ہر طرح کی ضروریات پوری کرتے۔ صبر و عزیمت کا پہاڑ تھے ۔ دین حق کی راہ میں قید و بند کے مرحلے سے گزرے۔تشدد اور ظلم کا نشانہ بناۓ گۓ مگر پاۓ ثبات میں کبھی لغزش نہ آئ۔ اس پہلو پر انشاءاللہ آئندہ کبھی فرصت ملی تو لکھوں گا۔ 
اللھم اغفر لہ وارفع درجتہ فی المھدیین واخلفہ فی عقبہ فی الغابرین واغفر لنا و لہ یا رب العلمین  وافسح لہ فی قبرہ ونور ہ فیہ  ۔
ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی  لکھنو 9839538225