Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 24, 2020

استقبالِ رمضان :::مہمان کی آمد سے یہ دل شادماں ہے۔


از/ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت۔
======================
دل پسندمہمان کی آمد انسان کو شادمان کردیتی ہے ۔ رمضان کا انتظار  پورے گیارہ مہینے کرنا پڑتا ہے اور جیسے جیسے آمدکی گھڑی    قریب آتی ہے تو رسول اللہ ﷺکی دعا یاد آجاتی ہے: یا اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت ڈال، اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔ شیخ عبدالکریم خضیر ؒ سے اس حدیث  کی صحت کے متعلق استفسار کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:"یہ حدیث تو ثابت نہیں ہے، لیکن  اگر کوئی مسلمان اللہ عز و جل سے یہ دعا کرے کہ اسے رمضان نصیب ہو جائے ، اور رمضان میں قیام و صیام کی توفیق ملے، لیلۃ القدر تلاش کرنے کی توفیق دے، یا کوئی بھی اسی معنی پر مشتمل دعا کرے تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے"۔ معلی بن فضل کہتے ہیں(سلف صالحین) چھ ماہ تک دعا کرتے تھے کہ یا اللہ! ہمیں ماہِ رمضان نصیب فرما، اور چھ ماہ تک یہ دعا کرتے تھے کہ یا اللہ! جو عبادتیں ہم نے کیں ہیں وہ ہم سے قبول فرما "۔  طویل  انتظار کے بعد آنے  والے مہمان کا استقبال   حتی الامکان شایانِ شان ہوتا ہے ۔

عام مسلمان رمضان کی تیاری میں سحر ی اور افطاری کی بابت سب سے زیادہ فکر مند ہوجاتاہے۔  سحروافطار کی فضیلت مسلمہ ہے  لیکن   ان   اشیائے خوردو نوش میں  رمضان نامی  مہمان کو کوئی خاص  دلچسپی نہیں ہوتی ۔ وہ تو ان کی رغبت کو کم کرنے کے  لیے آتا ہے اس کے برعکس  روزے داروں کی دلچسپی میں اس کھانے پینے کے حوالے سے  خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ اشیائے کام و دہن  جو سال بھر نصیب نہیں ہوتیں ماہِ رمضان میں میسر آجاتی ہے۔ سحر و افطار کا دائرہ اگر اپنی ذات  و اقربا ء سے وسیع کرکے اس میں غرباء و مساکین کو شریک کرلیا جائے تو وہ  صائم کوعظیم  بشارتوں  کا مستحق بنادیتی ہے۔  اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطارکروایاتواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لئے ہوگا،اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں‌ سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی‘‘۔  کورونا کے دور میں افطار پارٹی  کی مصیبت تو ویسے ہی ختم ہوگئی لیکن  مساکین کو افطار کرانے کی ضرورت میں بے شمار اضافہ ہوگیا ہے۔ ہرسال افطار پارٹی کے نام جو بے دریغ روپیہ خرچ کیا جاتا تھا امسال اسے  مستحقین کو راشن کٹ مہیا کرنے پر صرف  کیا جائے تو ان کا رمضان آسان ہوجائے گا  اور غالب والی حجت بھی ختم ہوجائے گی۔ یہ شعر روزہ نہ رکھنے کا جواز نہیں بلکہ فاقہ کش کو افطارکرانے کی ترغیب دیتا ہے  ؎
افطارِ صوم کی جسے کچھ دستگاہ ہو،اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے      جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو،روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
اس میں شک نہیں کہ اس بار کورونا نے ہمیں  رمضان کی بہت  ساری   رونقوں سے محروم کردیا ہے لیکن کیا اس چہل پہل  اور ہنگامہ آرائی  کا رمضان سے کوئی تعلق بھی  ہے ؟  نبی کریم ﷺنے تورمضان کے تعارف میں  ان چیزوں ذکر نہیں فرمایا کہ جن سے محرومی پر ہم کفِ افسوس مل رہے ہیں۔ ارشادِ رسولؐ ہے: ’’لوگو!تم پر ایک عظمت اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے ۔ اس مبارک مہینے کی ایک رات ہزار مہینے سے بہترہے ۔اس مہینے کی روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے۔ اس کی راتوں میں بارگاہِ  خدا وندی میں کھڑے ہونے کو نفل عبادت قرار دیا ہے ۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوئی نفل عبادت ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرائض کے برابر ثواب ملے گا ۔ اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب ستر فرضوں کے برابر ہو گا ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے ‘‘۔
ان میں سےکیا ہےجس کی راہ میں کورونا حائل ہو؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ  کورونا کے لاک ڈاون نےتلاوت و تہجد، تراویح و نوافل ، تسبیح و تحلیل کے راستے کی  بہت ساری خارجی  رکاوٹوں  کو دور کردیا ہے۔  اب ہمارے لیےاپنے نفس کو قابو میں کرنے کا سب سے بڑا چیلنج باقی ہے۔قرآن حکیم میں  رمضان کے روزوں کا مقصد ہی تقویٰ کا حصول    بتایا گیاہے۔ نفس کے گھوڑے پر اس سے بہتر لگام نہیں  کہ جو  شیطان کی پیروی سے روکے  اور یہ چابک بھی ہے  کہ جو ہمیں رب کائنات کی خوشنودی کی جانب مسلسل  گامزن رکھے ۔ اللہ کی محبت جب اس کے بندوں  کی جانب مڑ تی ہے تو رمضان ہمدردی و غمخواری کا مہینہ بن جاتا ہے۔  اس پہلو سے  کورونا کا لاک ڈاون رکاوٹ نہیں سہولت ہے ۔ اس لیے آئیے  ہم سب  کورونا کے ساتھ  مل کر رمضان کا پرتپاک  استقبال   کریں ۔