Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 16, 2020

کورونا وائرس: وہ مسلمان جو ہندوؤں کی آخری رسومات ادا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدمت ‏خلق ‏کے ‏جذبہ ‏سے ‏سرشار ‏سچی ‏تحریر ‏ ‏۔۔۔ضرور ‏پڑھیں۔۔

ریاست گجرات کے شہر سورت میں ایک مسلمان شخص بہت سے ہندو خاندانوں کے لٸے سہارے  کا ذریعہ بن رہا ہے۔

صداٸے وقت / بی بی سی اردو سروس سے ماخوذ۔
==============================
دنیا بھر میں لوگ کورونا وائرس سے لڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹرز، نرسیں، پولیس والے سبھی اس عالمی وبا کی فرنٹ لائنز پر ہیں۔ ادھر ٹیچرز اور سماجی کارکن لوگوں میں آگاہی بڑھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
ایسے حالات میں انڈیا کی ریاست گجرات کے شہر سورت میں ایک مسلمان شخص بہت سے ہندو خاندانوں کے لیے سہارے کا ذریعہ بن رہا ہے۔
اس تحریر کے وقت تک سورت میں کورونا وائرس سے چار لوگ ہلاک ہوئے ہیں اور ان کی آخری رسومات عبدالبھائی مالاباری نے کی ہے۔
وہ یہ کام کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے رنگ و نسل یا ذات پات کی تفریق کے بغیر کسی بھی شخض کے لیے کرتے ہیں اور یہ کام وہ ایک ایسے وقت پر کر رہے ہیں جب ہلاک ہونے والوں کے اپنے رشتے دار بھی اس وائرس کے خوف سے لاش کے قریب نہیں جا سکتے۔
بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے 51 سالہ عبدالبھائی کہتے ہیں ’میں لاوارث لاشوں کی آخری رسومات تقریباً 30 سال سے کر رہا ہوں۔ جو لوگ بھکاری ہوتے ہیں یا سڑکوں پر رہتے ہیں یا جو اکیلے مر جاتے ہیں، خودکشی کر لیتے ہیں، ان سب کو ایک باوقار انداز آخری سفر کی جانب روانہ کرنے کے لیے کوئی نہیں ہوتا۔ ہم یہ کام قدرتی آفات کے دوران جیسے کیدارنتھ سیلا، کوچھ زلزلے اور چنیائی میں سونامی کے دوران بھی کرتے رہے ہیں۔ میرے ساتھ 35 رضاکار بھی کام کرتے ہیں۔‘
جب کورونا وائرس کے متاثرین بڑھنے لگے تو سورت منیوسیپل کارپوریشن نے ہمارے ماضی کے تجربے کے پیشِ نظر ہم سے رابطہ کیا۔
انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں لاکھوں اموات ہو رہی ہیں اور ایسا امکان ہے کہ سورت میں بھی ہلاکتیں ہو تاہم ایسے مریضوں کی لاشیں ان کے رشتے داروں کو نہیں دی جا سکتیں۔ انھوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم ایسے لوگوں کی لاشوں کی آخری رسومات کرنے کو تیار ہیں تو میں نے فوراً حامی بھر لی۔
’ہم نے اپنی ٹیم کے 20 رضاکاروں کے نام فراہم کیے جو کہ یہ سروس دن کے مختلف اوقات میں کر سکتے ہیں۔ ہمیں سرکاری حکام اور ہسپتال کے حکام کسی وقت بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔ جیسے ہی ہمیں کال آتی ہے ہم کٹ اٹھاتے ہیں اور چل پڑتے ہیں۔ ہمیں ڈپٹی کمشنر آشش نائک نے پی پی ای کٹ کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتایا۔‘
وہ خود کو کیسے محفوظ رکھتے ہیں؟
جب آپ کسی ایسے شخص کی آخری رسومات کر رہے ہوتے ہیں جو کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہوا تو آپ کو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
عبدالبھائی بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کی ٹیم اس کام کے لیے وہ حفاظتی تدابیر اختیار کرتی ہے جو کہ ’عالمی ادارہِ صحت کی ہدایات کے مطابق ہوتی ہیں جیسے کہ پورے جسم پر خصوصی لباس، ماسک، دستانے وغیرہ۔‘
’لاش پر کیمیکل سپرے کیا جاتا ہے اور اسے مکمل طور پر پلاسٹک میں ڈھانپا جاتا ہے۔ ہمارے پاس لاشوں کو لے جانے کے لیے 5 گاڑیاں ہیں اور ان میں سے دو کورونا وائرس والوں کے مختص ہیں اور ان کی بار بار صفائی کی جاتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری تنظیم ایکتا ٹرسٹ یہ کام تین دہائیوں سے کر رہی ہے۔ سورت اور اس کے مضافاتی علاقوں جیسے کہ واپی یا بھورچ سے روزانہ 12 یا 13 لاشیں آتی ہیں۔ ہمیں لاشیں دریا یا نہر سے ملتی ہیں، ریلوے کی پٹری سے ملتی ہیں، یا وہ ملتی ہیں جو خود کو پھانسی دے دیتے ہیں۔ ہم ایسی ہی گلتی سڑتی لاشوں روز لاتے ہیں۔ اسی لیے ہم ایسی لاشوں کی آخری رسومات کے لیے ویسے بھی ماسک اور دستانے استعمال کرتے ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں انھیں حکومت کی مدد بھی حاصل ہے۔ ’ہمارے ساتھ پولیس کے سب انسپکٹر، سینیٹائزنگ ٹیم اور فائر کا عملہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔‘
یہ خوف ناک سے زیادہ درد ناک ہے
ہلاک ہونے والوں کی فیملی کے ساتھ اپنے تجربات کے بارے میں بات کرتے ہوئے عبدالبھائی کہتے ہیں ’جب کوئی شخص کورونا وائرس سے متاثرہ ہو تو ان کے خاندان کو بھی قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے۔ انھیں اس وقت سامراس ہوٹل میں بنائے گئے قرنطینہ سینٹر میں منتقل کیا جاتا ہے۔ انھیں وہاں 14 روز تک رکھا جاتا ہے۔‘
‘اگر کوئی شخص کورونا وائرس سے ہلاک ہوتا ہے تو اس کے رشتے دار اس کی آخری رسومات میں شرکت نہیں کر سکتے۔ ہم کئی سالوں سے گلتی سڑتی لاشیں دیکھ رہے ہیں مگر کورونا خوف ناک سے زیادہ درد ناک ہے کیونکہ فیملی والے آخری سفر کی جانب روانہ نہیں کہہ سکتے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ ایک قدرتی بات ہے کہ فیملی اپنے پیاروں کو ایک آخری مرتبہ دیکھنا چاہتے ہیں مگر اس کیس میں ایسا ممکن نہیں ہے۔‘’فیملی والے بہت روتے ہیں۔ ہمیں انھیں سمجھانا پڑتا ہے کہ یہ ان کی اپنی حفاظت کے لیے ہے۔ ہم انھیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان کی آخری رسومات ان کے مذہب اور رواج کے مطابق کریں گے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ سورت میں جو چار لوگ کورونا سے ہلاک ہوئے ہیں ان میں سے تین ہندو تھے۔‘
’اکثر دور کے رشتے دار کہتے ہیں درخواست کرتے ہیں کہ انھیں دور سے کھڑے ہو کر ان رسومات میں شریک ہونے دیا جائے۔ ایسے میں ہم انھیں ایک دوسری گاڑی میں لے کر جاتے ہیں اور وہ دور سے کھڑے ہوکر اپنی دعائیں کر لیتے ہیں۔‘
ہم اپنی فیملی سے بھی دور ہی رہتے ہیں
اپہنے خاندان کے بارے میں بات کرتے ہوئے عبدالبھائی کہتے ہیں کہ انھیں صرف اتنا کہا گیا کہ خیال رکھنا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ ہسپتال کے کورونا سیکشن میں ہوتے ہیں تو خصوصی لباس پہننے ہوتے ہیں مگر آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد وہ یہ اتار دیتے ہیں۔
’کام کے بعد ہم اپنے ہاتھ اور پیر دھوتے ہیں، صاف کپڑے پہنتے ہیں۔ ہم یہ احتیاط اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہماری اپنی فیملی کو بھی تو خطرہ ہے۔ اسی لیے ہم نے سوچا ہے کہ جب تک ہم یہ کام کر رہے ہیں تو ہم اپنے گھر والوں سے بھی دور رہیں گے۔ جب تک یہ صورتحال جاری ہے تب تک ہم اپنے گھر والوں سے بھی نہیں مل سکیں گے ۔ ہم نے اپنے دفتر میں ہی آرام کی جگہ بنا لی ہے۔‘
دوسرے لوگوں کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’اب لوگوں کو پتا ہے کہ میں کورونا کے مریضوں کی لاشیں اٹھاتا ہوں تو بہت سے لوگ دور سے ہی سلام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ میری گاڑی میں بیٹھنا پسند نہیں کرتے لیکن یہ مجھے پریشان نہیں کرتا۔‘
’حکومت نے ہمیں مالی امداد کی پیشکش کی ہے مگر تنظیم کے اراکین اور لوگوں کا دیا ہوا عطیہ ہی ابھی کافی ہے اس لیے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
ڈپٹی کمشنر آشش نائک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس مشکل وقت میں عبدالبھائی ہماری اہم مدد کر رہا ہے۔ وہ اور ان کی ٹیم 10 سے 15 منٹ میں ہمارے پاس پہنچ جاتی ہے۔ آخری رسومات کے بعد اس کی ٹیم اس جگہ کو بھی صاف کرنے کا کام کرتی ہے۔ وہ جو کر رہے ہیں وہ قابلِ تعریف ہے۔‘