Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 3, 2020

پاکستان نے سعودی حکومت کے رابطے کے بعد حج انتظامات معطل کر دیے

اسلام آباد۔۔پاکستان /صداٸے وقت /ذراٸع /٣ اریل ٢٠٢٠۔
==============================
سعودی عرب کی جانب سے دیگر ممالک کو رواں سال کے لیے حج معاہدے کرنے سے روکے جانے کے بعد پاکستان نے اپنے حج انتظامات معطل کر دیے ہیں۔ اس ضمن میں رواں برس حج پر جانے کے خواہش مند افراد غیر یقینی کی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
وزارتِ مذہبی امور کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے ماہِ رمضان کے آغاز تک حج کے حوالے سے حتمی طور پر آگاہ کرنے کا کہا ہے۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں سے ہر سال بہت بڑی تعداد میں حجاج دینی فریضے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔
رواں برس سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت ایک لاکھ 79 ہزار 210 پاکستانیوں کو حج کے لیے جانا ہے۔
وزارت مذہبی امور نہ صرف خواہش مند افراد سے حج اخراجات کی رقم وصول کر چکی ہے بلکہ اس حوالے سے درخواستوں کی قرعہ اندازی کے نتائج کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔
تاہم سعودی عرب نے ممالک کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ فی الحال رہائش اور دیگر انتظامات سے متعلق کوئی معاہدے نہ کریں۔
سعودی عرب کے وزیرِ حج کی طرف سے وزارتِ مذہبی امور کو لکھے گئے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورتِ حال پر وہ نظر رکھے ہوئے ہیں جس میں بہتری آنے پر حج سے متعلق مزید آگاہ کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ سعودی عرب بھی کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور وہاں اب تک 21 افراد ہلاک اور 1800 سے زائد متاثر ہیں۔
وزارتِ مذہبی امور کے ترجمان عمران صدیقی کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کی اطلاع کے بعد حج آپریشن پر کام روک دیا ہے۔ذراٸع ابلاغ کے مطابق  انہوں نے کہا کہ وزارتِ مذہبی امور نے حج کے حوالے سے تمام تر انتظامات کر رکھے ہیں اور موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں احتیاطی و تربیتی امور کو بھی زیر غور لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حج کے زیادہ تر انتظامات سعودی عرب میں کیے جاتے ہیں جس میں حجاج کا قیام، طعام اور ٹرانسپورٹ شامل ہے جو فی الوقت التوا کا شکار ہیں۔
واضح رہے کہ حجاج کی رہائش کے لیے مکانات، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ وغیرہ فراہم کرنے والوں اور دوسری خدمات فراہم کرنے والوں کو مہینوں پہلے پیشگی ادائیگی کرنا پڑتی ہے جس کے بارے میں سعودی حکومت نے معاہدے نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
پاکستان سے ایک لاکھ اسی ہزار میں سے ایک لاکھ سات ہزار 526 سرکاری اسکیم کے تحت جب کہ دیگر پرائیوٹ ٹوور آپریٹرز کے ذریعے حج کی سعادت حاصل کریں گے۔
جج ٹوور آپریٹرز بھی موجودہ صورتِ حال کے باعث پریشانی میں مبتلا ہیں۔ حج آرگنائزیشن ایسوسی ایشن پاکستان کے سیکرٹری محمد سعید کہتے ہیں غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے حج پر جانے کے خواہش مند افراد اور ٹوور آپریٹرز میں بے چینی پائی جاتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ بیشتر پرائیوٹ ٹوور آپریٹرز نے زیادہ تر انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ اگر حج کی اجازت مل جاتی ہے تو انہیں زیادہ دشواری نہیں ہوگی۔ ان کے بقول، گزشتہ ماہ سے عمرہ کی ادائیگی معطل ہونے سے انہیں مالی مشکلات کا سامنا ہے اور حج آرگنائزیشن ایسوسی ایشن نے وزیرِ اعظم سے ٹیکس چھوٹ کا مطالبہ بھی کر رکھا ہے۔
وزارتِ مذہبی امور کے ترجمان عمران صدیقی کے مطابق اگر سعودی عرب کی حکومت پاکستان کو ماہ رمضان کے آغاز تک حج کے حوالے سے مطلع کر دے تو وزارتِ مذہبی امور تمام انتظامات مکمل کر سکتی ہے۔
کیا رواں سال حج کا اجتماع منعقد ہوگا؟
سعودی عرب کی جانب سے حج کے حوالے سے دیگر ممالک کو انتظامات معطل کرنے کے بعد اسلامی دنیا میں یہ سوال پایا جاتا ہے کہ کیا رواں سال حج کا انعقاد ہو پائے گا؟
سعودی عرب کے وزیرِ حج کا بھی کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ صورتِ حال کے باعث یہ معلوم نہیں کہ حج 2020 کا آپریشن مکمل ہو گا یا نہیں۔وزارتِ مذہبی امور کے حکام کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت حج کو محدود رکھنے پر غور کر رہی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان سمیت دیگر ممالک سے 20 سے 25 فی صد عازمین کو حج کی اجازت دینے کی تجویز زیرِ غور ہے۔
وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ایسی صورت میں حج کے لیے پہلے سے منتخب خواہش مند افراد میں سے قرعہ اندازی کے ذریعے انتخاب کیا جائے گا۔
پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کا بھی ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں روایتی انداز میں حج کا انعقاد ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
قبلہ ایاز نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حج اس وقت واجب ہے جب یہ ممکن ہو یعنی حالات درست ہوں، راستے کھلے ہوں اور انسان استطاعت رکھتا ہو۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں لگتا ہے کہ شاید یہ شرائط پوری نہ ہو سکیں۔انہوں کہا کہ ایسی صورت میں اسے روکنے کی بجائے ہو سکتا ہے کہ محدود تعداد میں مقامی لوگوں کو ٹیسٹ وغیرہ کرنے کے بعد حج کی اجازت دے دی جائے۔ تاکہ اس انتہائی اہم مذہبی رکن کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہے۔