Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 10, 2020

مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والے میڈیا کے خلاف اورنگ آباد بینچ میں مفاد عامہ کی رٹ داخل

اورنگ آباد۔۔مہاراشٹر /صداٸے وقت /ذراٸع۔
============================
حکومت خود اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین اور ضوابط پر عمل پیرا نہیں ہے، اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے ، عوام کےبیچ نفرت اور دراڑ پیدا کرنے اور مسلم سماج کو بدنام کرنے میں مصروف میڈیا کے ایک طبقے کو مسلسل نظر انداز کر کے انھیں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔

اس بات پر روک لگانے اور ان خاطیوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرنے کے احکامت ان ارباب اقتدار و ارباب مجاز کو دیے جائیں اس کے لیے علاقہ مراٹھواڑہ سے تعلق رکھنے والے 10 وکلاء نے ایک مفاد عامہ کی رٹ ممبئی ہائی کورٹ اورنگ آباد بینچ میں داخل کی ہے۔
مرکزی حکومت ہند (وزارت داخلہ اور وزارت اطلاعات و نشریات) ، حکومت مہاراشٹرا (وزارت داخلہ) اور ریاست مہاراشٹرا کے ڈائریکٹر جرنل آف پولس ان چاروں کے خلاف ہائی کورٹ ایڈوکیٹ سعید ایس شیخ کی معرفت داخل کی گئی اور سینئر ہائی کو رٹ ایڈوکیٹ راجندر ایس دیشمکھ نے عدالت کےسامنے درخواست گزارں کے موقف کی واضاحت کی۔
جن 10 وکلاء نے یہ رٹ داخل کی ہے ان اسماعیل عبدالرحمٰن گاؤلی، (امبہ جوگائی ضلع بیڑ) ، کرشنا سبھاش راؤسالونکے( اورنگ آباد)، ملند کاڈوجی گوائی ( بلڈھانہ) ، سید محمد شفیق سید رشید ( ہنگولی) ،قاضی نعیم الدین صلاح الدین(ہنگولی) ، شیخ امتیاز اشرف (کیج ضلع بیڑ)، احمد اسماعیل پٹھان ( اورنگ آباد)، عمران مصطفیٰ خان پتھان ( اورنگ آباد)، ارشد احمد زبیرنایئک( ناندیڑ) رمیزراجہ شیخ مقصود( اورنگ آباد) شامل ہیں۔ان وکلاء نےعدالت عالیہ سے درخواست کی ہے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو ملک میں فرقاوارانہ منافرت پھیلانے اور عوام کے درمیان دراڑ پیدا کرنےسے روکنے کے لیے اور انھیں کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو ہدایات جاری کی جائیں۔ اسی طرح ان اشخاص کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کیے جائیں جو ملک میں سماجی ہم آہنگی کو متاثر کرنے اور ماحول کو کو فرقاوارانہ رنگ دینے کے لیےذمہ دار ہیں۔درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس وقت پوری دینا کورونا وائرس سے پریشان ہے، اور دنیاکے تمام ممالک اپنےاپنےشہریوں کی زندگیوں کو بچانے کے کوشیشوں میں مصروف ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی یہی صورتحال ہےاور لاک ڈاؤن جاری ہے۔ایسے حالات میں بھی پرنٹ، الیکٹرنک اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والا ایک طبقہ ، دہلی پولس کی جانب سے تبلیغی جماعت کے خلاف درج کیے گئے کیس کے بہانے سے پورے مسلم سماج کے خلاف زہر اگل رہاہے۔اور اس مقصد کے لیے جھوٹی ، بناوٹی بے بنیاد اور پرانی خبریں نشر کی جا رہی ہیں۔ایسے وقت میں جب ساری دنیا متحد ہو کر انسانیت کو بچانے کی کوششوں میں لگی ہے ہمارے ملک میں میڈہا کا ایک طبقہ عوام کےبیچ نفرت اور دراڑ پیدا کرنےمیں مصروف ہے۔ اور اس کے لیے وہ ” کورونا جہاد” ، "دھرم کے نام پر ادھرم” اور ” کورنابم” وغیرہ جیسی اصطلاحات کا استعمال کھلے عام کررہا ہے۔ ان تمام باتوں کو حکومت کے سامنے پیش کیا گیا لیکن حکومت اور ارباب مجاز کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس لیے میڈیا مسلسل اپنی ان حرکتوں کو دہرا رہا ہے۔ اور حکومت خود اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین و ضابطوں کو نظر انداز کر رہی ہے ، علاوہ ازیں سپریم کورٹ کی جانب سے مارچ 2020 کے فیصلے میں دی گئی ہدایات و احکامات کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس لیے جھوٹی، بے بنیاد اور نفرت انگیز خبروں کو پھیلانے سےروکنے اور خاطیوں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کے لیے حکومت کو ہدایات جاری کی جائیں۔
ہائی کو رٹ کے جج پرسن وراڑے نے سماعت کے بعد کہا کہ سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملہ ریز سماعت ہے اس لیے فی الحال اس معاملے کی سماعت کرنا یا فیصلہ دینا ممکن نہیں۔اور اگلی سماعت کے لیے 10 ہفتوں بعد کی تاریخ دے دی۔