Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 18, 2020

بول ‏کی ‏لب ‏آزاد ‏ہیں ‏تیرے ‏!!!!


از /  ابوسعد اعظمی / صداٸے وقت۔/18 اپریل 2020.
==============================
محترم وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے آج انقلاب میں شائع شدہ اپنے مضمون ’’لاک ڈاؤن: اتحاد ،تحمل اور بے مثال قیادت‘‘ میں جس طرح وزیر اعظم کی مدح سرائی کی اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا جائزہ لیا، اسے دیکھ کر بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ جب پوری دنیا میں لاک ڈاؤن پر عمل ہورہا ہے اور ہر جگہ کی عوام اس پر عمل پیرا ہے ۔اس مہلک بیماری سے بچنے کا سب سے کارگر ہتھیار بھی اطبا نے ایک دوسرے سے دور رہنے کو قرار دیا ہے، تو ہندوستان میں بغیر مزاحمت کے اس کے نفاذ کو وزیر اعظم کی مقبولیت کے طور پر پیش کرنا کس قدر احمقانہ خیال ہے۔

بات یہیں ختم ہوجاتی تو زیادہ مسئلہ نہیں تھا، لیکن محترم وزیر دفاع نے تو آج کچھ اور ہی سوچ کر قلم اٹھایا تھا۔انہوں نے محترم وزیر اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ماضی کے اوراق پلٹنا ضروری خیال کیا۔اور بالخصوص گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر انہوں نے جن سخت حالات میں کام کیا اس سے یہ ثابت کیا کہ دنیا کے اور حکمرانوں کے بالمقابل محترم وزیر اعظم کے پاس ان حالات سے نپٹنے کا پہلے سے تجربہ ہے۔اب یہ کون نہیں جانتا کہ ۲۰۰۲ میں گجرات فساد میں وزیر اعلی کی ناک کے نیچے جو کچھ ہوا اور جس طرح مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا،اس نے بیرون ممالک میں اس وقت کے وزیر اعلی کی کیا شبیہ پیش کی تھی۔
 کرونا کی اس مہلک بیماری کے بحران میں اس سے نپٹنے کے لیے انہوں نے جو حکمت عملی اختیار کی،اس پر بھی کئی ایک سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔اگرچہ وزیر اعظم نے قوم کے نام اپنے خطاب میں اس بات کا اعتراف کیا کہ جب ہندوستان میں کرونا کا ایک بھی کیس نہیں تھا تبھی سے ایئرپورٹ پر آنے والوں کی اسکریننگ شروع کردی گئی لیکن کیا واقعات اس کے برخلاف نہیں ہیں۔کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ جب راہل گاندھی نے اس مہلک بیماری کے تعلق سے جنوری ہی میں ٹویٹ کیا تھا،اسی وقت اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیاہوتا اور حفاظتی اقدامات اختیار کیے گئے ہوتے تو شاید ہندوستان میں اس کے اثرات بہت محدود ہوتے۔لیکن ملک کے محترم وزیر اعظم اس وقت ٹرمپ کے استقبال کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے،مارچ میں جب کئی ممالک میں یہ بیماری سنگین صورتحال اختیار کرچکی تھی،اس وقت تک ہندوستان اس سلسلے میں سنجیدہ نہیں تھا اور آر ایس ایس کی مختلف شاخوں میں گائے کے پیشاب اور گوبر کو بطور علاج تجویز کیا جارہا تھا اور حکومت مدھیہ پردیش میں کانگریس سرکار گرانے میں لگی ہوئی تھی۔ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ملک میں سب کچھ نارمل چل رہا ہو۔اور ۲۲مارچ کو ایک دن کے کامیاب لاک ڈاؤن کے تجربہ کے بعد ۲۴ مارچ سے ملک گیر سطح پر ۲۱ دن کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا۔اور ملک کی مختلف ریاستوں میں رہائش پزیر ان لاکھوں مزدوروں کے مسائل کو نظر انداز کردیا گیا جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں پیش آسکتے تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاک ڈاؤن کے اعلان کے اگلے روز ہی بڑے پیمانے پر اس کی خلاف ورزی ہوئی اور خود وزیر اعظم کی ناک کے نیچے آنند وہار ٹرمنل ،دہلی  میں لاکھوں مزدور کی بھیڑ جمع ہوگئی اور اس نے لاک ڈاون کی افادیت کو کالعدم کردیا۔اس کے بعد گھر واپسی کی کوئی سبیل نظر نہ آنے،اور قیام کی صورت میں متوقع خطرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے طول طویل مسافت بھوکے،پیاسے اور بےبسی کے عالم میں جس طرح طے کی،چشم فلک نے شاید ایسا نظارہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو،بڑے پیمانے پر ہجرت کے ان مناظر نے تقسیم وطن کی یاد لوگوں کے ذہن میں تازہ کردی۔کتنے افراد بھوک اور پیاس کی تاب نہ لاکر زندگی کی جنگ ہار بیٹھے۔اگر محترم وزیر اعظم نے ان کے سلسلے میں پہلے سے انتظامات کا اعلان کیا ہوتا اور ان کے نفاذ کو یقینی بنایا ہوتا تو شاید یہ صورتحال نہ پیش آتی۔خود وزارتِ صحت کا یہ ماننا ہے کہ اس موقع پر جو بھیڑ اکٹھا ہوئی تھی ان میں دس میں ہر تیسرے شخص کو کرونا ہوسکتا ہے۔محترم وزیر اعظم نے ڈاکٹروں کی حوصلہ افزائی کے لیے تالی اور تھالی تو بجوادی،لیکن اس سنگین صورتحال سے نپٹنے کے لیے انہیں جو ضروری وسائل درکار تھے اس کی عدم دستیابی کا شکوہ وہ کرتے ہی رہے اور یوپی میں انہیں جو کٹ فراہم کی گئی اس میں مرکز کی ہدایات کو نظر انداز کردیا گیا جس کی وجہ سے اپوزیشن کو بھی سوالات اٹھانے کا موقع ملا۔ غریبوں کو مایوسی سے نکالنے کے لئے موم بتی اور دیا جلوادیا، لیکن بھوک سے نجات پانے اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے وہ سرکاری امداد کا انتظار کرتے رہے،کاش پندرہ لاکھ نہیں، پندرہ ہزار ہی ان کے اکاؤنٹ میں آگیا ہوتا تو شاید ماضی میں کیے گئے وعدوں کی کسی حد تک تلافی ہوجاتی۔لیکن یہ تو غریب افراد ہیں ان کی پرواہ کسے ہوتی ہے،سوشل میڈیا پر خود دہلی کے مختلف علاقوں کی جو تصویریں وائرل ہورہی ہیں ان سے حکومتی امداد کے دعووں کی حقیقت اب کسی سے مخفی نہیں رہی۔ان حالات کے باوجود محترم وزیر دفاع نے جس انداز میں محترم وزیر اعظم کی ستائش کی ہے اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے سلسلے میں رطب اللسان ہیں، انہیں پڑھ کر اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔