Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, April 14, 2020

زہر ‏اگلنے ‏والی ‏میڈیا ‏پر ‏لگام ‏کسنے ‏کا ‏معاملہ ‏۔۔سپریم ‏کورٹ ‏نے ‏دیا ‏پریس ‏ٹرسٹ ‏آف ‏انڈیا ‏کو ‏فریق ‏بنانے ‏کا ‏حکم۔



متعصب میڈیا پر لگام کسنے کو لیکر ہماری قانونی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی: ____*مولانا ارشدمدنی* 

نئی دہلی 13/اپریل۔/صداٸے وقت /پریس ریلیز
==============================
مسلسل زہر افشانی کرکے اور جھوٹی خبریں چلاکر مسلمانوں کی شبیہ کوداغدار، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف داخل کی گئی جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہوئی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا ودیگر دو ججوں کے سامنے جمعیۃ علماء ہند کے وکیل آن ریکارڈ اعجاز مقبول ایڈوکیٹ نے مضبوطی سے اپنے دلائل رکھے اور کہا کہ تبلیغی مرکز کو بنیاد بنا کر پچھلے دنوں میڈیا نے جس طرح اشتعال انگیز مہم شروع کی یہاں تک کہ اس کوشش میں صحافت کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بھی پامال کردیا گیا اس سے مسلمانوں کی نہ صرف یہ کہ سخت دل آزاری ہوئی ہے بلکہ ان کے خلاف پورے ملک میں منافرت میں اضافہ ہوا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک عام سے واقعہ کو میڈیا کے بڑے حلقے نے غیر معمولی واقعہ بناکر پیش کیا، اور اس کے لئے جھوٹ کو بنیاد بنایا گیا، یہاں تک کہ کورونا وائرس کی وباء کو کورونا جہاد سے تعبیر کرکے یہ تاثر دینے کی مجرمانہ کوشش کی گئی کہ ملک میں اس وبا کو مسلمانوں نے پھیلایا ہے، اس سے عوام کی اکثریت نہ صرف گمراہ ہوئی بلکہ عام مسلمانوں کو لوگ شک کی نظر سے دیکھنے لگے. 
اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مسٹر اعجاز مقبول نے چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے، جسٹس ناگیشورراؤ اورجسٹس شانتا نوگورا کے بینچ سے کہا کہ *ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ عدالت میڈیا کے لئے شرائط اور حدود طے کرے، اور اسے آئندہ اس طرح کی اشتعال انگریزی سے روکے،* کیونکہ ایک ایسے وقت میں کہ لوگ ایک ساتھ مل کر کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہیں بے لگام میڈیا کا ایک بڑا طبقہ معاشرے میں انتشار وتفریق پیدا کرکے لوگوں کو مذہبی طور پر تقسیم کرنے کی خطرناک سازشیں کررہا ہے، اور اس کے لئے دھڑلے سے جھوٹی خبریں اور فرضی ویڈیوز کا سہارا لیا جارہا ہے، جو قانونی طور پر انتہائی قابل گرفت بات ہے.
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحافتی اصول کا تو یہ تقاضہ ہے کہ کوئی بھی خبر شائع یا نشر کرنے سے پہلے اس بات کی باضابطہ طور پر تصدیق کی جائے کہ آیا خبر میں جو کچھ کہا گیا ہے صحیح ہے یاغلط، مگر میڈیا ایسا نہیں کررہا ہے.
 *انہوں نے کہا کہ ہمارا قانون یہ بھی کہتا ہے کہ اس طرح کی کوئی خبر شائع یا نشر نہیں کی جانی چاہئے جس سے کسی شخص یا فرقہ کی بدنامی یا دل آزاری ہویا جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں.* 
مسٹر اعجاز مقبول نے عدالت کے سامنے 98 اخبارات کے تراشے اور ویڈیوز بطور ثبوت پیش کئے اور کہا کہ *انڈیا ٹی وی ، زی نیوز ، نیشن نیوز ، ری پبلک بھارت ، ری پبلک ٹی وی ، شدرشن نیوز چینل* اور بعض دوسرے چینلوں نے کس طرح تبلیغی جماعت اور عام مسلمانوں کے خلاف عرصہ سے محاذ کھول رکھا ہے، انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ WHO، بی جے پی کے قومی صدر، وکلاء اور ڈاکٹروں کی ٹیموں اور دوسرے کئی اہم اداروں نے میڈیا کی اس غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک رپورٹنگ پر اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے اور انہیں متنبہ بھی کیا ہے، مگر میڈیا نے بظاہر اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا ہے، انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ جس طرح میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند طریقہ سے اشتعال انگیز رپورٹنگ ہوئی ہے اس سے پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور غم وغصہ کا اضافہ ہوا ہے، یہاں تک کہ بعض جگہ اس وجہ سے ان پر حملہ بھی ہوئے ہیں.
مسٹر اعجاز مقبول نے عدالت کے سامنے 31 صفحات پر مشتمل اپنی تحریری بحث بھی پیش کی، ان کے دلائل سننے کے بعد عرضی کو سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے عدالت نے *پریس کونسل آف انڈیا* کو فریق بنانے کا حکم دیا اور سماعت دو ہفتہ کے لئے ملتوی کردی، واضح ہوکہ یہ عرضی جمعیۃ علماء ہند کی لیگل سیل کے سربراہ گلزاراحمد اعظمی نے داخل کی ہے۔
آج کی قانونی پیش رفت پر جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ متعصب میڈیا پر لگام کسنے کی ہماری قانونی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی، عدالت کے حکم کے مطابق پریس کونسل آف انڈیا کو بھی فریق بنایاجائے گا. انہوں نے کہا کہ *آزادی کے بعد پریس کونسل آف انڈیا کا قیام اسی مقصد کیلئے عمل میں آیا تھا کہ اس کے ذریعہ اخبارات پر نظر رکھی جائے گی،* مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ ہمارا شروع سے یہ اصول رہا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ سیاسی طور پر حل نہیں ہوتا تو ہم اپنے آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے عدالت جاتے ہیں، اور ہمیں وہاں سے انصاف بھی ملتاہے. اس معاملہ میں بھی ہمارے تمام تر مطالبوں اور گزارشات پر جب کوئی کاروائی نہیں ہوئی، اور فرقہ پرست میڈیا نے اپنی فرقہ وارانہ رپورٹنگ کی روش ترک نہیں کی تو ہمیں عدالت کا رخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا، ہم اپنی اس جدوجہد کو آخر آخر تک جاری رکھیں گے، اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے معاملوں کی طرح اس اہم معاملہ میں بھی ہمیں انصاف ملے گا، کیونکہ یہ معاملہ محض مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کے اتحاد اور قومی یکجہتی سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔

فضل الرحمن قاسمی: پریس سکریٹری جمعیۃعلماء ہند: 9891961134