Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 1, 2020

مرکزتبلیغی جماعت معاملے پرامانت اللہ خان نےکہا- ایل جی صاحب ڈی ایم اورپولیس پرکارروائی نہیں ہوگی؟

نظام الدین مرکز کے پورے معاملے کو کورونا وائرس  کے سبب کئے گئے لاک ڈاون کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

نئی دہلی: /صداٸے وقت /ذراٸع /یکم اپریل 2020.
==============================
دارالحکومت دہلی کے حضرت نظام الدین علاقے میں واقع مرکز تبلیغی جماعت میں ہوئے پروگرام میں حصہ لینے والے 200 دیگر غیرملکیوں کے الگ الگ مسجدوں میں ہونے کی اطلاع پولیس کی اسپیشل سیل نے دہلی حکومت کو دی۔ ان میں سے 100 لوگوں کی شناخت کے ساتھ یہ بھی پتہ لگانےکا دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ سبھی کن مساجد میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ وہیں 7 انڈونیشیائی شہریوں کو بھی آئیسولیشن سینٹرمیں بھیج دیا گیا ہے۔ دراصل اس پورے معاملےکو کورونا وائرس کی وجہ سےکئےگئےلاک ڈاون کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس سے متعلق دہلی پولیس نے ایک ایف آئی آر بھی درج کی ہے۔
وہیں اس پورے معاملے میں عام آدمی پارٹی کےلیڈر امانت اللہ خان نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) پر پولیس اور ڈی ایم پر کارروائی کے لئے سوال اٹھایا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈر امانت اللہ خان نے آج اس بابت ٹوئٹ کرتے ہوئےکہا، ’ایل جی صاحب ڈی ایم اور پولیس پرکارروائی نہیں ہوگی کیا؟ کیا ڈی ایم اور پولیس نہیں جانتی تھی کہ مرکز نظام الدین میں کورونا کے مریض ہیں، تو پھر2361 لوگوں کو کورونا سے مرنے کےلئےکیوں چھوڑ دیا۔ اے ڈی ایم مینا نے 23 مارچ کو مجھے خود بتایا تھا کہ مرکز میں کورونا کے مریض ہیں۔
واضح رہےکہ پولیس کے ذرائع کے مطابق جن 200 لوگوں کے دہلی کی الگ الگ مسجدوں میں ٹھہرنے کی رپورٹ اسپیشل سیل نے ریاستی حکومت کو دی ہے، ان میں 8 ممالک کے شہری ہیں۔
اطلاعات کے مطابق یہ انڈونیشیا، بیلجیم، الجیریا، ملیشیا، اٹلی، تیونس، بنگلہ دیش اور قرغستان سے مرکز میں شامل ہونےکےلئے ہندوستان پہنچے تھے۔ پولیس کو خدشہ ہےکہ یہ لوگ کورونا انفیکشن کے چپیٹ میں ہوسکتے ہیں اور ان کے سبب دیگر لوگوں میں بھی انفیکشن کا خطرہ ہے۔ اس کےبعد پولیس نے اپنی جانچ تیزکی اور 100 لوگوں کی شناخت اور ٹھکانے کی تفصیلات جمع کی گئیں۔ واضح رہے کہ نظام الدین مرکز میں شامل ہونے کے بعد یہاں سے دیگر ریاستوں میں بھی لوگوں کے جانے کی اطلاع کے بعد کئی ریاستوں کی پولیس سرگرم ہوگئی ہے۔