Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, April 28, 2020

کورونا وائرس کے ساتھ ہی ملک میں فرقہ پرستی کا ننگا ناچ، باعثِ تشویش : علمائے کرام و دانشوران ملت.

نوادہ..بہار۔۔ /صداٸے وقت۔/پریس ریلیز /٢٨ اپریل ٢٠٢٠۔
=============================
 ضلع نوادہ کی معروف ومشہور شخصیات مولانا محمد جہانگیرعالم مہجورالقادری ضلعی صدر تنظیم عُلمائےحق ضلع نوادہ، قاضئ شہر علامہ نعمان اخترفائق جمالی مہتمم دارالعلوم فیض الباری نوادہ ،مفتی عنایت اللہ قاسمی دفترسکریٹری مجلسُ العلماءوالاُمّہ ،مولاناسیدارشدافضلی خانقاہ افضلیہ ،مولانا شکیل سلفی صدر جمعیت اہلحدیث نوادہ، مولانا نصیرالدین مظاہری نائب ناظم مدرسہ عظمتیہ انصارنگر نوادہ، سماجی و سیاسی رہنما اقبال حیدر خان میجر، اسلامک فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری محمد نظام خان کلو اور قاری سلطان اختر مہتمم جامعہ کبیریہ گلنی نے ایک مشترکہ پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا کہ ادھر حالیہ چند مہینوں سے کوروناوائرس کی آڑ میں ملک کے مسلمانوں کو بیجا بدنام کیا جارہا ہے جب کہ کورونا کی اس بیماری سے پورے ملک کو نجات دلانے کی خاطر ملک کے مسلمانوں نے ہر قدم پہ حکومت کا ساتھ دیا ہے
 اور زندگی کے ہر شعبے میں مرکزی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری کئے گئے سارے احکامات کی پابندی کی ہے مگر اس کے باوجود بھی ملک کے بیشتر مقامات پہ مسلمانوں کو کورونا کہہ کے چڑھایا جارہاہے جس کے سبب کئی مقامات پہ فرقہ وارانہ فسادات بھی رونما ہوئے حد تو یہ ہے کہ ملک کے 30 کروڑ مسلمانوں کو تبلیغی جماعت سے منسوب کر کے اسے بدنام کیا جارہا ہے، جب کہ ملک کے بیشتر مسلمانوں کا تبلیغی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ان علماء و دانشوروں نے اس بات پہ بھی تشویش کا اظہار کیا کہ سوشل میڈیا میں اس طرح کے بھی ویڈیو وائرل ہورہے ہیں کہ جس میں بجرنگ دل، آر ایس ایس، ہندو مہا سبھا اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے علی الاعلان یہ کہا جارہا ہے کہ کہ کوئی بھی ہندو کسی بھی مسلم دکان سے کسی طرح کی بھی خریداری نہیں کرے اور ہندو کی دکانوں میں یہ انتہا پسند ہندو تنظیمیں بھگوا گمچھا اور بینر تقسیم کررہی ہیں اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگر کوئی مسلم کسی ہندو محلے میں کچھ بیچنے کے لئے جاتا ہے تو اس سے نام پوچھا جاتا ہے نیز آدھار کارڈ مانگا جاتا ہے اگر پتہ چل گیا کہ یہ مسلمان ہے تو اسے بری طرح ذدو کوب بھی کیا جاتا ہے ہے ساتھ ہی اسے کورونا کورونا کہہ کےمار پیٹ کےبھگا دیا جاتا ہے آخر یہ ملک کہاں جارہاہے؟ کیا آج تک کسی مسلمان نے کہا ہے کہ غیر مسلم سے یا کسی ہندو کی دکان سے کوئی مسلمان کچھ نہ خریدے؟ آج بھی کثیر تعداد میں ہندو بھائی مسلمانوں کے محلے میں دودھ، دہی گھی، سبزی اور پھل لے کر آتے ہیں جسے مسلمان بے چون و چرا خریدتے ہیں اور حسنِ سلوک سے بھی پیش آتے ہیں مذہب کے نام پہ فرقہ وارانہ ماحول بنا کر ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو خدا کے واسطے پامال نہ کریں آخر میں مسلمانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ اس سال رمضان اور عید بالکل سادگی کے ساتھ منائیں شاپنگ اور خریداری سے مکمل اجتناب کریں جب ہماری مسجدیں بند ہیں نہ نماز پنجوقتہ نہ تراویح اور نہ دیگر عبادات ہم مسجد میں ادا کرسکتے ہیں تو پھر عید کی خوشی کیسی؟ اور ہم خریداری کرکے غیر مسلموں کی معیشت کو فائدہ کیوں پہنچائیں ہم ان کی نظر میں اگر برے ہیں تو میرے روپئے سے انہیں کیوں محبت ہے؟ اس لئے آپ تمام مسلمانوں سے اپیل ہے کہ اسی پیسے سے غریبوں، ناداروں اور دینی مدارس کے یتیم و غریب طلباء کی مالی امداد فرما کر اجر عظیم کے مستحق بنیں چونکہ آپ کی معاشی و اقتصادی حالات کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ملک میں بہت گہری سازش چلی جا رہی ہے لہٰذا اس سے آپ ہوشیار رہیں