Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 17, 2020

جمعہ ‏نامہ ‏۔۔کورونا ‏کی ‏نعمت ‏، ‏احساس ‏غنیمت۔


از/ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت۔
==============================
یوم الجمعہ کو علی الصبح غسلِ جمعہ   عبادت سے زیادہ عادت بن گئی ہے۔ کورونا  کی وباء کے دوران  حمام جاتے ہوئے خیال آتا ہے کہ  نہ جمعہ کی نماز اور نہ خطبہ تو آخر غسل کیوں؟ اس طرح کا وسوسہ  انسان کو ان کاموں سے بلاوجہ  روک دیتا ہے کہ جو اس کےقبضۂ قدرت  میں ہوتے ہیں ۔ انسان اگر کسی مجبوری کے تحت جمعہ نہیں پڑھ سکے تو کیا اس کو غسل جمعہ کے اجر سے محروم کردیا جائے گا؟  کیا عام حالات میں جمعہ  کا غسل کرنے والے کو یقین ہوتا ہے کہ وہ نمازِ   جمعہ نماز ادا کرسکے گا ؟  کیا اس وقفہ میں لوگ داعیٔ اجل کو لبیک نہیں کہتے ؟  ’غنیمت‘ کےمعنیٰ خداداد اور قابل قدر اشیاء کے بھی ہوتے ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ کا قول ہے ’’ اپنی صحت میں سے اپنے مرض کے لیے کچھ بچا کررکھ لو یعنی مریض بن جاؤ گے تو پھر کچھ نہیں کر سکو گے،لہٰذا اللہ نے صحت دے رکھی ہے تو اسے غنیمت سمجھواور آخرت کی کچھ تیاری کرلو۔ حیاتِ دنیا سے موت کے لیے ساز و سامان مہیا کرلو‘‘۔
نبی کریم ﷺ کی بہت مشہور حدیث ہے  ’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ اس کا مطلب  ہے کہ آگے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قابل  قدر پانچ نعمتوں کا ذکر ہونے والا ہے ۔ اس بابت سب سے پہلے ’ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے‘  غنیمت سمجھنے کی تلقین ہے ۔ بچپن  میں  انسان  جوانی طرف بھاگتا ہے اور جوانی کے بعد بوڑھاپے سے کتراتا ہے۔  دائمی شباب  کی  خواہش اس دنیا میں نہیں جنت  ہی میں پوری ہوگی  ۔ دنیائے دنی میں جس طرح  انسان  صدا بہار  نہیں رہ سکتا  یہی ضابطہ صحت ، خوشحالی ، فراغت اور بالآخر عرصۂ حیات پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ 
 مذکورہ   حدیث میں آگے فرمایا  : ’’ صحت کو بیماری سے پہلے،  ‘‘ غنیمت جانو۔  فی الحال  دنیا بھرکے جو لاکھوں  لوگ  کورونا سے متاثر ہیں  وہ جملہ آبادی کا بہت قلیل حصہ ہے۔ اس جان لیوا وباء سے جو لوگ محفوظ ہیں ان کے پاس یہ  گارنٹی نہیں ہے کہ وہ کسی  دوسری بیماری کا شکار نہیں ہوں گے ۔ اس لیے بیمار ہونے قبل اس وباء کی روک تھام میں اور غرباء و مساکین پر اپنا مال خرچ کرنا  ’’ مالداری کو تنگ دستی سے پہلے‘‘ غنیمت سمجھنا ہے۔  حدیث مبارکہ میں آگے مشغولیت کے مقابلے فراغت کا ذکر کیا گیا ہے۔ عصرِ حاضر میں گھنٹوں کا کام منٹوں میں اور سالوں  کا سفر ہفتوں میں ہوجاتا ہے۔  اس کے باوجود عصرِ جدید کے انسان کو وقت  کی کمی  قلق   پہلے سے زیادہ ہوتا ہے ۔   کورونا نے   مصروفیت کے حریص انسان   کوفراغت  سے مالا مال کردیا ہے۔   یہ سہولت کورونا کے ساتھ چلی  جائے گی۔ اس لیے محرومیت سے قبل اس فراغت کی نعمت غیر مرتقبہ کو غنیمت   جاننا چاہیے ۔ 
اس حدیث رسول ﷺ میں پانچویں اور آخری تلقین زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھنے کی ہے۔  کورونا کی وباء سے قبل 2019 میں اوسطاً  3سے زیادہ لوگ  ہر سیکنڈ لقمۂ اجل بنتے تھے ۔ فی منٹ ان کی تعداد 197 سے زیادہ کی بنتی ہے اور ہرگھنٹے میں 11844۔ اسی طرح ایک دن کا حساب لگایا جائے تو 2 لاکھ 84ہزار 256لوگ اس دنیا  سے چلے جاتے  ہیں ۔ کورونا سے مرنے والوں کی تعداد107دن بعد بھی اس سے کم ہے۔   آگے  چل کر مرنے والوں اس  تعداد میں  اضافہ ہی ہوگا کیونکہ  عالمی  آبادی بڑھے گی تو اسی شرح سے مرنے والے  بھی بڑھیں گے ۔ اس تلخ حقیقت کا انکار ممکن  نہیں ہے کہ ایک دن  ہم سب  جانے والوں میں شامل ہوجائیں گے اورمہلتِ عمل ختم ہوجائےگی ۔ اس کے ساتھ حساب کتاب  کا دفتر کھل جائے گا ۔  اس مہلت دنیا کو موت سے قبل غنیمت جاننے والا خوش بخت  یہ دعا کرتا ہے کہ’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، نعمت کے زائل ہو جانے سے، عافیت کے پھر جانے سے، اچانک پکڑاور تیری ہر طرح کی ناراضی سے‘‘۔بقول علامہ اقبال ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!