Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 24, 2020

آمد ‏ماہ ‏رمضان ‏اور ‏فلسفہ ‏نعمت ‏و ‏مصیبت۔




*تحریر:سرفراز احمد قاسمی (حیدرآباد)*/صداٸے وقت ۔
==============================
  پوری دنیا اس وقت کرونا وائرس کی زد میں ہے،اورمختلف ملکوں میں لاک ڈاؤن جاری ہےجسکی وجہ سے لوگوں کوبہت ساری دشواریوں اور پریشانیوں کاسامنا بھی ہے،سماج کےمختلف طبقات کی الگ الگ پریشانیاں ہیں،اور ان پرشانیوں اورمشکلات کے باوجود، رمضان المبارک جیسا عظیم الشان مہینہ اپنی تمام تررعنائیوں،رحمتوں،برکتوں اور خوبیوں کےساتھ ہم پرسایہ فگن ہورہاہے،ہندوستان کے بعض علاقے جیسے کیرلہ اور سعودی عرب میں آج پہلا روزہ ہےاور آج وہاں دوسری تراویح ہوگی،ہندوستان سمیت ایشیائی ممالک میں امید ہے کہ آج سے انشاءاللہ ماہ رمضان کی شروعات ہوجائے گی،آئیے سب سے پہلے ہم یہ جانتے ہیں ماہ رمضان ہرسال کیوں آتاہے؟اسکے مقاصد کیاہیں؟ پہ مہینہ لوگوں سےکس چیز کامطالبہ کرتاہے؟ہمیں اس عظیم ماہ میں کیاکرنا چاہیے؟ اس مہینے کی عظمت کو قرآن کریم نے کچھ اس طرح بیان فرمایا جسکامفہوم یہ ہےکہ"ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیاگیا،اسکا وصف یہ ہے کہ یہ لوگوں کےلئے سراپا ہدایت ہے اور وضح دلیل بھی ہے،منجملہ ان کتابوں کے جوکہ ہدایت ہیں اور فیصلہ کرنے والی ہیں،پس جو آدمی اس مہینے میں موجود ہو اسکو ضرور اس میں روزہ رکھنا چاہئیے،اور جو شخص بیمار ہو یاسفر میں ہوتو دوسرے ایام کا شمار رکھنا ہے،اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی اور سہولت چاہتاہے،اور تمہارے حق میں انھیں پریشانی منظور نہیں،اور تاکہ تم لوگ شمار کی تکمیل کرلیا کرو،اور اس بات پرتم لوگ اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کیاکرو کہ اس نے تمکو طریقہ بتلایا،تاکہ تم لوگ شکریہ اداکرو"(سورہ بقرہ)اس آیت سے کئی چیزیں معلوم ہوگئیں کہ اس مہینے یعنی رمضان المبارک کا قرآن کریم سے ایک خاص ربط وتعلق ہے،دوسری یہ کہ اس ماہ کی خصوصی عبادت روزہ ہے،جواللہ تبارک وتعالیٰ کے قرب کااہم اور بہترین ذریعہ ہے،اس پرمسلمانوں کو شکرگزاری کرنی چاہئے،کوئی اس سے ہرگز یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ روزہ رکھنے کا حکم لوگوں کو مشقت اورتکلیف میں ڈالنے کےلئے ہے،اس لئے یہ واضح بھی کردیاگیا کہ اگرکوئی سفرمیں ہو یابیمار ہوتو ایسے لوگوں کےلئے سردست روزہ رکھنا ضروری اورلازم نہیں،بلکہ دوسرے وقت میں جب سہولت ہو اپنی سہولت کےمطابق اس فریضہ سےسبکدوش ہونے کی گنجائش موجود ہے،یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ کامقصد لوگوں کوتنگی اور مصیبت میں ڈالنا نہیں ہے،بلکہ آسانی اورسہولت پیدا کرنا ہے،خلاصہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے ساتھ سہولت اور شفقت کامعاملہ ہے تو پھر بجا طور پر لوگوں کا یہ فرض بنتاہے کہ وہ اسکی تعظیم بجالائیں اور اسکی نعمتوں کی شکرگزاری میں کوئی کمی نہ کریں،(تحفہ رمضان)

یہ تو قرآن کی رہنمائی تھی جس نے رمضان کی حقیقت اوراسکا مقصد بیان فرمایا، اب آئیے دیکھتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے اس تعلق سے کیافرمایا اورلوگوں کو اس بارے میں کیاہدایات دی گئی؟حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ شعبان کے آخری ایام میں رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا"اے لوگو!تم پرایک عظیم اور مبارک مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے،وہ ایسا مہینہ ہے جس میں ایک ایسی رات  شب قدر ہے جو ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے،یعنی اس رات میں عبادت کرنے کاثواب ہزاروں مہینوں کی عبادت سے زیادہ ملتاہے،اللہ تعالی نے اس مہینے میں دن کاروزہ فرض اور راتوں کی عبادت نفل قرار دی ہے،جوشخص اس مہینے میں کوئی نیک عمل کے ذریعے قرب خداوندی کا طالب ہو وہ ایساہی ہے جیسے دوسرے ماہ میں کسی فرض پرعمل کرے،یعنی اس مہینے میں نفل کا ثواب فرض کے درجہ تک پہونچ جاتاہے،اور جوشخص اس مبارک ماہ میں کوئی فرض اداکرے وہ ایساہے،جیسے دیگرمہینوں میں 70 فرض اداکرے،یعنی رمضان میں ایک فرض کاثواب ستترگنا
گناہ ہوتا ہے،اے  لوگو  یہ  صبر
  کامہینہ ہے اورصبر کا بدلہ جنت ہے،اور یہ لوگوں  کےساتھ مواساة (ہمدردی ) اورخیرخواہی کا مہینہ ہے،اس ماہ میں مومن کارزق بڑھادیاجاتاہے،جوآدمی اس مبارک مہینے میں کسی روزہ دار کوافطار کرائے تواسکے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں،اسے جہنم سے آزادی کاپروانہ ملتاہے،اور روزہ دار کے ثواب میں کمی کئے بغیر افطار کرانے والے کوبھی اسی کے بقدر اجر دیاجاتاہے،یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ!ہم میں سے ہرشخص تواپنے اندر اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ وہ دوسرے کو باقاعدہ افطار کرائے،توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا"اللہ تعالی یہ ثواب ہراس شخص کو دیےگا جوکسی بھی روزہ دار کو ایک گھونٹ لسی،ایک عدد کھجور یاایک گھونٹ پانی پلاکر بھی روزہ افطار کرائے،اور جو روزے داروں کو پیٹ بھر کھانا کھلائے،تواللہ تعالیٰ اسے قیامت کےدن میرے حوض یعنی حوض کوثر سے ایساپانی پلائیں گے جسکے بعد کبھی پیاس نہ لگے گی،یہاں تک کہ وہ ہمیشہ کےلئے جنت میں داخل ہوجائے گا،پھرآپ نے فرمایا "یہ ایسا مہینہ ہے جسکا پہلا عشرہ رحمت ہے،درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور آخری عشرہ جہنم سے آزادی کاہے،جو شخص اس ماہ میں اپنے غلام، خادم مزدور،اور ملازم وغیرہ پر کےبوجھ کو ہلکاکرے،اوراسکے ساتھ آسانی کامعاملہ کرے تو اللہ تعالی اسکی مغفرت فرماتے ہیں،اور آگ سے آزادی عطاکرتے ہیں،لوگو اس ماہ میں چار چیزوں کی کثرت رکھا کرو،کلمہ طیبہ کی کثرت،استغفار کی کثرت،جنت کی طلب اور آگ سے پناہ مانگاکرو،(مشکوٰۃ،بیہقی)
اس تفصیلی خطبے پر اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ یہ خطبہ رمضان المبارک کا بہترین منشور اور عمدہ نظام الاوقات ہے،جس سے اس عظیم ماہ کی اہمیت، فضیلت، اوراسکی قدرو قیمت کااندازہ کیاجاسکتاہے،یہ مہینہ قمری مہینوں کےاعتبار سے نواں مہینہ ہے،اور اسکے رمضان نام رکھنے کی وجہ حدیث میں یہ آئی ہے کہ رمض سے نکلا ہے جسکے معنی عربی لغت میں جلادینے کے ہیں،چونکہ اس ماہ میں یہ خصوصیت ہے کہ یہ مسلمانوں کو گنا ہوں سے پاک کردیتاہے،بشرطیکہ اس ماہ مکمل احترام اوراسکے اعمال کااہتمام کیاجائے،اور چونکہ اس ماہ میں غم خواری اور مواساة کاحکم دیا گیاہے،اسلئے اسکی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فقیر اور محتاجوں کے رزق میں وسعت اور زیادتی کاسبب ہے،اسلئے بہرحال ہمیں اس عظیم الشان ماہ مبارک کااہتمام کرناچائیے،اوراپنے اوقات کوغنیمت سمجھ کر اس مہینے کےلئے وقف کردینا چاہئے، دراصل نعمتوں اور مصیبتوں کاسلسلہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اسلئے قائم کیا تاکہ لوگوں کی آزمائش اورانکا امتحان لیاجاسکے،حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ"اس دنیامیں انسانوں کی جانچ کےلئے اللہ تعالیٰ نے دوسلسلے قائم کئے ہیں،ایک سلسلہ نعمتوں کا اور دوسرا سلسلہ مصیبتوں کاہے،دونوں کامقصد انسان کی جانچ اور آزمائش ہے،نعمتیں دےکراسلئے آزماتے ہیں کہ دیکھیں نعمتوں میں گھر کر یہ آدمی نعمت دینے والے کو بھی یاد رکھتاہے یاپھر نعمتوں میں الجھ کررہ جاتاہے،اگرانسان اپنی نعمتوں،اپنی عیش وعشرت میں الجھ کر رہ جائے اور اسے یہ یاد نہ رہے کہ اسے یہ نعمت کس نے دی تھی توکہا جائے گا کہ اس بندے کےقلب میں کفرانِ نعمت کاجذبہ چھپا ہواتھا وہ کھول دیاگیا اور ظاہر ہوگیا،کل قیامت کےدن اگر اسکے لئے کوئی جزا تجویز کی جائےگی تو اسکویہ کہنے کاہرگز موقع نہیں ملے گا کہ مجھے پہلے جانچ تو لیا ہوتا،آزمائش کاموقع تو دیا ہوتا،بلکہ خود اس پرنمایاں ہوجائے گا کہ اس جانچ میں پڑکر میں نے اپنے بارے میں کیاثبوت دیا،اس طرح سے نعمت،دنیا میں خود ایک مستقل آزمائش کی چیز ہے،خواہ وہ دولت ہو خواہ وہ عزت ہو"(خطبات حکیم الاسلام)ایک جگہ لکھتے ہیں کہ"اسی طرح کبھی کبھی مصیبتوں سے بھی آزمایا جاتاہے،مصیبت سے آزمائش یہ ہوتی ہے کہ مصیبت میں گھر آدمی مصیبت ہی کاہوکر رہ جاتاہے، واویلا، جزع فزع اور پرشانی ہی کا ہوکر رہ جاتاہے یااسکی نگاہ مصیبت کےبھیجنے والے پربھی ہوتی ہےکہ اس نے میری کسی مصلحت کے سبب اسکو بھیجا ہے،اگر مصیبت پرنگاہ ہے،مصیبت بھیجنے والے پر نہیں تو اسکا ثمرہ یہ ہے کہ آدمی کابے صبراپن ظاہر ہوگا،اللہ کی شکایت ظاہر ہوگی کہ میں ہی آزمائش کےلئے رہ گیاتھا،اور میں ہی مبتلا کرنے کےلئے رہ گیاتھا،لیکن اگر مصیبت میں گھر کرثابت قدم رہے اور یہ دیکھے کہ مصیبت تو بےشک سخت ہے،مگر بھیجنے والا ماں باپ سے زیادہ شفیق ہے،مہربان ہے،اسلئے یہ پریشانی مجھے ستانے کےلئے نہیں بھیجی گئی ہے،ایمان کی جانچ کےلئے بھیجی گئی ہے،توپھر بندہ صبر کرےگااور صبر کے امتحان میں کامیابی حاصل کرے گا،تو نعمت سے آدمی کی شکرگزاری کاامتحان ہوتاہے اور مصیبت سے صبروتحمل کاامتحان ہوتاہے کہ کون بندہ ثابت قدم ہےاورکون ضعیف القلب،جونعمت اور مصیبت کے امتحان میں کامیاب ثابت ہوا وہی بندہ فی الحقیقت بندہ ہے،اور جوکامیاب نہ ہو وہ بندہ ہی نہیں،وہ یاتو نعمت کابندہ ہے یاپھر مصیبت کابندہ ہے جوانھی دوکی طرف جھکتاہے"(دیکھئے جلد3) آگے لکھتے ہیں کہ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے نہ فقط عیش کی جگہ بنایا نہ فقط مصیبت کی،یہاں دونوں چیزیں ہیں عیش وآرام بھی ہے اور مصیبت بھی ہے،گو عیش کم ہے مصیبت زیادہ ہے،جہاں فقط عیش ہے مصیبت کانام نہیں اسی عالم کو جنت کہتے ہیں اور جس جہاں میں مصیبت ہی مصیبت ہےعیش کا نام و نشان نہیں اسی کو جہنم کہتے ہیں،مصیبت کی انتہا موت پر ہوتی ہےاور نعمتوں کی انتہا زندگی پرجاکر ہوتی ہے،زندگی نعمتوں کاسرچشمہ ہے اورموت مصیبتوں کا سرچشمہ،موت کےمعنی درحقیقت سلب حیات ہے،یعنی زندگی چھین لی جائے،بس یہ موت ہےتو عیش کو چھین لیا جائے،یہ عیش کی مصیبت یہ بھی موت ہے"
اوپر کی باتوں سے آپ نے امدازہ لگالیاہوگا کہ نعمت ومصیبت کافلسفہ اوراسکا مقصد کیاہے،مصائب ومشکلات دراصل آدمی کےاخلاق کی اصلاح کی جاتی ہے،عیش وعشرت کی کثرت سے لوگوں کےاندر کےاندر غنا پیداہوجاتاہے اوراسکے نتیجے میں سرکشی بڑھ جاتی ہے اسلئے اللہ تعالی بطور علاج وقتا فوقتاً مصائب وآلام کا شکار کرتارہتاہے تاکہ لوگ راہ راست پرآجائیں،تکالیف وپریشانیوں کے دوران رمضان المبارک کی آمد بہر حال ہمارے لئے کسی سوغات اور قیمتی تحفہ سے کم نہیں ہے،ضرورت ہےکہ ہم اس ماہ کی برکتوں اور سعادتوں کوزیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی کوشش کریں یہ ہمارےلئے بہترین موقع ہے،اللہ تعالیٰ کااصول ہے ہرنعمت کےبعد وہ مصائب  بھی بھیجتاہے، اورہرمصائب کےبعد نعمت راحت اور خوشی بھی،اللہ تعالیٰ ہم سبکواس مقدس ماہ کی قدر کرنے کی توفیق عطافرمائےتمام مسلمانوں کواس مصرعہ کےساتھ
ماہ رمضان کی مبارکباد کہ
      *مبارک  ہو مسلمانوں کہ پھرماہ صیام آیا*  
رابطہ۔۔۔۔8099695186.
ای میل sarfarazahmedqasmi@gmail.com 
(مضمون نگار،کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک،حیدرآباد کے جنرل سکریٹری ہیں)