Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, May 21, 2020

دہلی فساد: 700 ایف آئی آر درج، دہلی پولیس کے رویہ پر سماجی کارکنوں اور دانشوروں نے اٹھایا بڑا سوال۔

آن لاٸن پریس کانفرنس میں میں دہلی پولیس کی جانب سے کی جا رہی گرفتاری اور مقدمات قائم کئے جانے پر سنگین سوال اٹھائے گئے۔

نئی دہلی:/صداٸے وقت /ذراٸع / ٢١ مٸی ٢٠٢٠۔
==============================
 دہلی میں شہریت قانون اور این پی آر کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء اور سماجی کارکنان کے خلاف قانونی کارروائی اور گرفتاریوں کے معاملے میں سوال شروع سے ہی اٹھ رہے تھے اور قومی سطح پر دانشور اور بڑے حقوق انسانی کارکنان اس سلسلے میں پہلے بھی اپنے بیان جاری کرکے دہلی اسپیشل سیل کی کارروائی کی مذمت کر چکے ہیں، لیکن اب اس معاملے میں پرشانت بھوشن، منوج جھا، کویتا کرشنن، تیستا سیتلواڑ، ندیم خان، نوید حامد اور انجینئر محمد سلیم جیسے بڑے سماجی کارکنوں اور دانشوروں  نے دہلی پولیس پر کھل کر سوال اٹھاتے ہوئے آج پریس کانفرنس کی۔
آن لائن کی گئی اس پریس کانفرنس میں میں دہلی پولیس کی جانب سے کی جا رہی گرفتاری اور مقدمات قائم کئے جانے پر سنگین سوال اٹھائے گئے۔ پرشانت بھوشن نے پریس کانفرنس میں یہاں تک کہا کہ جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ تشدد میں دہلی پولیس کے کردار پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں  بھی دہلی پولیس کا کردار مشکوک ہے، ایسے میں دہلی پولیس شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کی سازش کی جانچ نہیں کر رہی بلکہ کہ وہ تحقیقات کی سازش کر رہی ہے اس پورے معاملے میں اعلی سطحی جانچ ہونی چاہئے اور دہلی پولیس کی ذمہ داری طےکی جانی چاہئے۔
پرشانت بھوشن نے کہا  14 سال گزر جانے کے بعد بھی پولیس کی ذمہ داری کو لے کر سپریم کورٹ کے فیصلے پر آج  تک عمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا عدالتوں کا صرف ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت کرنا بھی غلط ہے، باضابطہ سماعت ہونی چاہئے۔ اگر سماجی دوری (سوشل ڈیسٹنسنگ) بھی بنانی ہے تو کہا جاسکتا ہے صرف ایک وکیل ایک فریق کی جانب سے پیش ہو۔
اس سے قبل سماجی کارکن ندیم خان نے یہ کہتے ہوئے پہلے پولیس پر سوال اٹھایا کہ شہریت قانون کے خلاف احتجاج کر رہے خالد سیفی اور عشرت جہاں کو دہلی پولیس نے 14 مارچ کو گرفتار کیا تھا، لیکن عشرت جہاں کو ضمانت مل گئی، خالد سیفی کو بھی ضمانت ملنےکا پورا امکان تھا لیکن خالد سیفی کے خلاف شمال مشرقی دہلی فسادات کی سازش کا الزام بھی عائد کردیا گیا۔ ندیم خان نے کہا کہ دہلی پولیس کی طرف سے یہ دیکھا گیا کہ وہ شہریت قانون کے خلاف تحریک میں شامل طالب علموں اور سماجی کارکنان پر پہلے فساد کی سازش کی ایف آئی آر نمبر 59 لگاتی ہے۔ حالانکہ دہلی پولیس کے مطابق اس  فساد کو لےکر700 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف ایک ایف آئی آر کے تحت کیوں کارروائی کی جا رہی ہے جبکہ گجرات فساد میں انصاف کی لڑائی کو لےکر مشہور تیستا سیتلواڑ نے کہا کہ انہیں دہلی میں ہو رہی کارروائی کے معاملے میں گجرات فساد 2002 کی کہانی یاد آتی ہے کیونکہ وہاں پر بھی مظلوم لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ دہلی پولیس نوجوانوں کی فریمنگ کر رہی ہے۔ حالانکہ پہلے یہ کہا گیا تھا کہ دہلی فساد شہریت قانون کے خلاف تحریک کی بدولت ہوا، بعد میں بھیما کورے گاؤں کی طرح سازش رچ دی گئی اور اب دہلی پولیس اس فساد کی کہانی لکھ رہی ہے اور یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب دنیا بھر میں لوگوں کو جیل سے باہر نکالا جارہا ہے جبکہ ہندوستان میں سیاسی قیدی بنا کر جیل بھری جارہی ہے اس بات میں کوئی شک نہیں۔ دنیا بھر میں سرکاروں کے ذریعہ پنڈ مک مہا ماری کا استعمال  لوگوں کے حقوق کو صلب کرنےکے لئےکیا جا رہا ہے اور ہمارا ہندوستان ترکی سے الگ نہیں ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینئر محمد سلیم نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں موجودہ سرکار اپنے فرقہ پرست اور سیاسی اہداف پر پوری طرح سے کام کر رہی ہے، لیکن دہلی پولیس کا یہ کام نہیں کہ وہ سیاسی اہداف پورے کرے اب دہلی پولیس کی ساکھ کا سوال ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا کہ ہندوستانی مسلمان حکومت کے اس رویے سے ڈرنے والے نہیں ہیں، اگر نوجوانوں کو گرفتار کیا جائےگا تو ان کی جگہ اس سے بھی بڑی تعداد لے گی