Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 4, 2020

آرتھک ‏بہشکار ‏(معاشی ‏باٸیکاٹ) ‏کی ‏جنگ ‏۔۔

از/ مشتاق نوری /صداٸے وقت ۔
=============================
حریف کو کمزور کرنے،گھٹنوں کے بل گرانے کے لئے اس کے کئی ممکنہ طریقے ہوسکتے ہیں۔کوئی ضروری نہیں کہ اسے پسپا کرنے کے لئے لاؤ لشکر کے ساتھ جنگ ہی چھیڑی جاۓ یا پھر دو دو ہاتھ کرنے کے لئے دعوت مبارزت ہی دی جاۓ۔کچھ جنگیں تو خاموش انداز میں جیتی گئی ہیں۔تاریخ جنگ و جدال اور روداد فتح و شکست پڑھنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ کئی بار حریف خیمے کو سرنگوں کرنے کے لئے اس کے سماجی و معاشی مقاطعہ کا سوانگ رچا گیا ہے۔اور یہ حربہ ہمیشہ کارگر بھی رہا ہے۔
۲۰۰۲؍ کے بعد ملک میں فرقہ واریت کا زور بڑھنے لگا ساتھ ہی دشمن نے بڑی چالاکی سے ہماری ہر طرح سے ناکہ بندی کروا دی۔اسی میں آرتھک بہشکار (معاشی مقاطعہ) کا ایسا زہرناک سلوگن چلایا کہ آج ہر مہینے سننے میں آتا ہے کہ مسلمانوں کا آرتھک بہشکار کرو۔مسلم دکانوں سے سامان مت خریدو۔مسلم ٹھیلے والوں کو ہندو آبادی میں گھسنے مت دو۔آج واٹس ایپ، فیسبک،ٹویٹر،انسٹاگرام جیسے ہائی رینج سوشل سائٹس پر اسی طرح کے کمینٹ و ٹرینڈ چلاۓ جارہے ہیں۔یہ پہلے خفیہ طور پر چلتا تھا مگر آج کھل کر آگئے ہیں۔ گاؤں کے مین دروازے پر ایسے زہرناک سندیش کے بینر پوسٹر بھی لگاۓ جارہے ہیں۔اور یہ کوئی اچانک یا کسی جنونی طبقے کا کیا دھرا نہیں ہے بلکہ ایک باشعور مگر فرقہ پرست طبقے کی سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جارہا ہے۔
آج آپ دیکھ لیجئے کہ نوے فیصد ہندو مسلم ٹھیلے والوں سے اشیاۓ خوردنی خریدنے سے ہر ممکن بچتے ہیں۔اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی ہندو غلطی سے ہی کسی زید یا عمر کی دکان پر کپڑے یا مٹھائی لینے چلے جاتے ہیں۔ورنہ حالات نارمل ہوں یا خراب، کوئی بھی ہندو ہم آپ سے لین دین کرنے سے کتراتے ہیں۔
کووڈ ۱۹؍ کے بہانے تبلیغی جماعت کی آڑ میں میڈیا نے پورے مسلم سماج کو کتنا کوسا ،افترا ڈالا، اتہام رکھا، کورونا کا سارا بخار اسی مظلوم سماج پر اتارا گیا۔ہر باشعور شخص واقف ہے۔ہم آپ اس خیال میں ہیں کہ میڈیا کے اس منفی پروپگنڈےکا دیگر سیکولر و دیہات کے ہندوؤں پر اثر نہیں پڑے گا۔جب کہ یہ خیال سراسر بچکانہ ہے۔اس کی تازہ مثال آپ کو بتاؤں۔میں بہار کے مسلم اکثریتی ضلع کشن گنج سے تعلق رکھتا ہوں۔جس میں تقریبا ۷۰؍ فیصد مسلم آتے ہیں۔مگر میں جس بلاک ٹھاکر گنج سے ہوں اس کی مسلم آبادی نوے فیصد سے بھی زائد ہے۔جہاں مجھے دور دور تک سینکڑوں مسلم بستیاں دکھتی ہیں وہیں کہیں پہ کوئی ایک چھوٹا سا ہندو گاؤں دکھتا ہے۔میرے گاؤں سے پانچ سو میٹر کی دوری پر مین روڈ کے کنارے کنارے غیر مسلموں ۳۰ سے ۴۰ گھر کی ایک چھوٹی سی بستی آباد ہے جسے ہم لوگ بنگالی بستی کہتے ہیں۔اور یہ سب "ہندو و‌‌‌رن" کے حساب سے ڈوم ،چمار اور نائی،آدی واشی لوگ ہیں۔قیام بنگلہ دیش کے بعد یہ لوگ وہاں سے نقل مکانی کرکے ادھر اکر بس گئے۔سورجا پوری ماحول میں لمبے عرصے سے رہنے کے باوجود ان لوگوں کی بول چال اب بھی بنگلہ ہی ہے۔مرد و عورت سمیت سب مسلموں کے مختلف گاؤں سے ہی مزدوری کرکے روزی روٹی حاصل کرتے ہیں۔انہی میں ایک گنیش نام کا نائی ہے۔جو ہمارے بازار چوک پہ سیلون چلاتا ہے۔ادھر لاک ڈاؤن کے سبب جب کچھ لوگ اس کے گھر گئے بال تراشوانے کے لئے تو صاف صاف کہ دیا کہ میرے سماج کا آدیش(حکم) ہے کہ جب تک یہ کورونا بیماری ختم نہ ہوجاۓ کسی مسلم کا بال نہیں کاٹنا ہے۔
آپ اس کے تہ میں جاکر دیکھیے تو آپ کو سب کچھ سمجھ آجاۓ گا کہ شودر ذاتی کے ان بے پہچان لوگوں کا سلوک بھی ہمارے ساتھ کتنا خطرناک ہے جنہیں خود ہندو سماج اپنے مندروں میں گھسنے کی اجازت نہیں دیتا۔جس سماج کو آج ہندوؤں نے صرف اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا ہے جو ہمارے درمیان رہ کر گزر بسر کی چیزیں کماتا ہے وہ بھی آج کس طرح کمیونل ہوگیا ہے۔
اس کا علاج یہ نہیں کہ آپ ایک بڑی بھیڑ لے جاکر ان کے گھروں کو نذر آتش کر دیجئے۔ان کے ساتھ مار پیٹ کیجئے۔نہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ خاموش طریقے سے اس کا وہی آپریشن تشخیص کیجئے جسے ہندو انتہا پسند "آرتھک بہشکار" کہتے ہیں۔پھر دیکھیے یہ کیسے گھنٹوں کے بل آجاتے ہیں۔مگر ایسا نہیں ہوگا۔آج سب کہ رہے تھے کہ اس کے پاس اب بال نہیں کٹوانا۔یہ ہم سے کما کر ہمیں ایسا کہے گا۔وغیرہ وغیرہ۔یہ سب جذباتی رد عمل ہے جب کہ سچائی یہ ہے کہ ابھی چند ہی دن گزرنے دیجئے پھر سب اسی گنیش کے سیلون پہ ملیں گے۔اور مزیدار گپّے بھی لڑائیں گے۔مانو کچھ ہوا ہی نہیں۔
دو سال قبل محرم کے موقعے سے اسی ٹھاکر گنج شہر کی جامع مسجد میں کچھ سر پھرے ہندو لڑکوں نے بوقت نماز رنگ اور سندور پھینک دیا جو مسجد میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی زد میں آگئے۔بعد میں پتا چلا کہ اس کے پیچھے "گپتا وسترالیہ" کے آنر کی سازش تھی۔جو آر ایس ایس کا ممبر ہے اور یہاں بھی اس کی شاکھا بنانے کی کوشش میں ہے۔بازار میں اس کے کپڑے کی دکان نمبر ون پہ ہے۔کمال تو یہ ہے کہ سارے خریدار مسلم ہیں۔اس کے باوجود اتنی بڑی سازش رچ ڈالی، حیرت ہے۔حالات مسموم دیکھ کر باضابطہ ذمہ داروں کی میٹنگ ہوئی کہ اب کوئی بھی گپتا کی دکان سے کپڑے نہیں خریدے گا۔مگر کیا ہوا؟ رُکے بھی تو صرف چار پانچ روز کے لئے۔چھٹے دن سب اسی سنگھی کی دکان پر مہنگے داموں کپڑے خرید رہے تھے۔یہ مسلم قوم ہے صاحب! اس کے سدھرنے کے مواقع اتنے زیادہ نہیں ہیں۔مار کھانے، کوٹے جانے، عزت اتارے جانے کے بعد بھی اس کے سنبھلنے کی اتنی جلدی امید لگانا عبث ہے۔

قدرت ہم پہ کتنی مہربان ہے کہ ہماری حد درجہ حماقت و سادگی اور وسائل و ذرائع کی تنگی کے باوجود ہمیں دشمن کو کمزور کرنے کے لئے الگ الگ موقعے پیدا کر دیتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ ہم اس کو بھُنا نہیں پاتے۔ہر بار ہم دشمن کو گھیرنے کے قریب آجاتے ہیں مگر ہماری سادگی، بھولے پن،حماقت، یا ضرورت سے زیادہ سیکولزم اور حالات سے غافلانہ چشم پوشی ایسا کرنے نہیں دیتی۔
پچھلے دو تین سالوں سے انڈین لیدر مارکیٹس میں چمڑوں (خاص کر چرم قربانی)کا دام اپنی نچلی سطح پہ آگیا ہے۔جب کہ لیدرس سے بنے سامانوں کا دام اوپر چڑھتا جا رہا ہے۔چمڑے کا دام اتنا گرجانا کوئی حادثہ نہیں ہے۔بلکہ اس کے لئے کافی پہلے سے زمین تیار کی گئی ہے۔قربانی کے چمڑے سے ڈائریکٹ فائدہ ہمارے مدارس کو پہنچتا تھا۔اسی بہانے مدرسوں کو بڑی رقم ہاتھ آجاتی تھی۔گو بھکتوں،گو پتروں کے پاس ہمارے مدارس کا سارا لیکھا جوکھا موجود ہے۔مدارس کو نقصان پہنچانے کا یہ موقع انہوں نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
اس بار ہندوستان کے اکثر ذمہ داران مدارس نے میٹنگس کیں۔صلاح و مشورے کئے۔اعلان نامے بھی شائع کئے کہ اس بار چرم قربانی وصولے نہیں جائیں گے۔لوگ اپنے چمڑوں کو دفنا دیں، یا کام میں لائیں۔بطور تعاون متعلقہ مدرسوں کو کچھ روپے ارسال کریں۔ میں نے بھی اپنی مسجد میں دو تین جمعے اسی موضوع کو ہاتھ لگایا اور سختی و اعتماد کے ساتھ یہی اعلان بھی کیا۔مگر عین ایک دو روز قبل ایک مدرسے کے مفتی صاحب فتاوی رضویہ کا حوالہ لے کر آ دھمکے۔کہ نہیں کسی بھی مال کو ضائع کرنا حرام ہے۔پھر کیا تھا، اسی فتوی کو تعویذ بنا کر لوگ نکل پڑے۔ فی چمرہ دس روپے ہونے کے باوجود مدرسے والوں نے چمڑے کے لئے چھینا جھپٹی شروع کردی۔
مانا کہ مال ضائع کرنا حرام ہے مگر مصلحت اور حکمت بھی تو کوئی چیز ہے صاحبو؟ جنگ کے بھی کچھ اصول الگ ہوتے ہیں۔بہت سے قلعے بنا لڑے ہی جیتے گئے ہیں صرف اس لئے کہ ان کے رسد کمک کا راستہ کاٹ دیا گیا تھا۔جب کہ اسلام کسی کو بھی بھوکا پیاسا رکھنے کے خلاف ہے۔اس کے باوجود رسد روک دی گئی۔نہتے پہ وار کرنا اسلامی جنگی اصول کے خلاف ہے۔پھر بھی کمک کو یرغمال رکھا گیا۔

اگر ہم دو سال چرم قربانی وصولے بغیر کام چلا لیتے۔اس کی خرید و فروخت ملتوی رکھتے تو لیدرس کمپنیوں کی کمر ٹوٹ جاتی۔وہ کمپنیاں جو سرکار کو ٹیکس ،جی ایس ٹی بھرتی ہیں سب ٹھپ ہوجاتیں۔جی ایس ٹی کے نام پر سرکار کو ملنے والی موٹی رقم بند ہوجاتی۔پھر سرکار کو سمجھ میں آتا کہ فرقہ وارانہ گیم کبھی کبھی خود کو کیسے مہنگا پڑتا ہے۔ہم نے کچھ بھی سیاسی بصیرت سے کام لیا ہوتا تو شاید حالات ہمارے لئے کچھ سازگار بھی بن سکتے تھے۔
اس وقت کووڈ ۱۹؍ نے عام لوگوں کی کمر توڑ دی ہے۔لاک ڈاون کا یہ لمبا ہوتا سفر کافی لوگوں کو بھاری پڑ رہا ہے۔یہ کتنا لمبا کھنچے گا بتانا مشکل ہے۔ایسے میں پیسے بچا کر چلنا، کفایت شعاری سے کام لینا، غریب پڑوسیوں کا بھی خیال رکھنا بے حد ضروری ہوگیا ہے۔جب اُدھر آرتھک بہشکار کی اتنی باتیں کی جارہی ہیں تو ایک بار ہم سب بھی ٹھان کر دیکھ لیں کہ اس بار کی عید بالکل سادہ سی ہوگی۔کوئی شاپنگ واپنگ نہیں۔کوئی خریداری نہیں۔ویسے بھی نئے کپڑے پہن کر عید پڑھنا فرض و واجب تو ہے نہیں۔

فرض کیجئے اگر اس عید کو سو روپے فی کس خرچہ ہو تو ۲۰؍کروڑ آبادی پر تقریبا ۲۰؍ارب روپے ہوتے ہیں۔اور کتنی بڑی رقم ہے اس سے کتنے بگڑے کام بناۓ جاسکتے ہیں۔یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ ہم لوگ ابھی این آر سی، سی اے اے سے باہر نہیں نکلے ہیں۔کورونا جاۓ گا اور این آر سی کو سر پر مسلط کر دیا جاۓ گا۔پھر اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے ہم دفتروں کے چکر کاٹتے رہیں گے۔موجودہ سچوئیشن میں ہمارے لئے این آر سی کورونا سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔یقین نہ آۓ تو آسام کے ان ۵؍لاکھ مسلموں سے پوچھ لیں جو این آر سی سے باہر کر دیئے گئے ہیں۔

سارے ائمۂ مساجد، علما دین ،پیران طریقت ،دانشوران قوم ،ذمہ داران ملت اس بار اعلان کریں کہ ہم اپنی عید بالکل سادہ طرز میں منائیں گے۔کوئی تام جھام نہیں۔کوئی بڑی خریداری نہیں۔بس ضرورت کی کچھ چیزیں ہی بازار سے لیں گے۔جس طرح ابھی رمضان کے روزے کافی لوگوں کے سوکھا چل رہے ہیں۔کافی لوگوں کو پچھلی بار کی طرح لذیذ ڈش، مزیدار یکوان شاید نہ مل پاتا ہو۔جب اتنا جھیل رہے ہیں تو کچھ اور سہی۔قدرت نے ایک بار پھر موقع دیا ہے۔اس سے بہت بڑا فائدہ ہوسکتا ہے۔

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف 
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

مشتاق نوری 
۳؍مئی ۲۰۲۰ء