Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 19, 2020

ایک ‏دھوپ ‏تھی ‏جو ‏ساتھ ‏گٸی ‏آفتاب ‏کے ‏۔۔۔۔



از/ شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی/صداٸے وقت
==============================
 اس دنیا میں  تاریخیں انسانوں کو  امتیازی مقام کرتی ہیں،لمحات  شناخت عطا کرتے ہیں، زمانے کی کوئی گردش اور وقت کی کوئی گھڑی  انھیں یادگار بنا جاتی ہے، گردش شام و سحر کی انہیں مخصوص ساعتوں کے آئینے میں انسان  اپنے اہم واقعات کو دیکھتا ہے، وہ اپنی ذات کو خاندان کواور قوموں کو انہیں تاریخی حوالوں سے پہچا نتا ہے وہ تاریخ اس کی زندگی کا حوالہ ہوتی ہے اور پستیوں وعظمتوں کے حوالے سے اس کے وجود کی رہین منت۔۔
       شرف الدین عظیم قاسمی

لیکن زندگی کی شاہراہوں پر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی زندگیاں ان لمحات اور زمانوں کے رحم وکرم کی محتاج نہیں ہوتی ہیں، ان کے وجود کی تنویروں میں کسی ساعت کسی وقت کسی تاریخ اور کسی گردش ارض وفلک کا کرشمہ نہیں ہوتا ہے ،بلکہ زمانے کی گردشیں خود  اپنی انفرادیت کے لئے ان کی محتاج ہوتی ہیں، وہ اپنی صلاحیتوں،استعدادوں ،بے نظیر شعوری قوتوں،مسلسل جہد،متواتر
عمل، چٹانوں کی طرح عزم،پہاڑوں کے مانند ہمت واستقلال، دریاؤں کی طرح بے تاب،اور ہواؤں کی طرح ہردم رواں دواں اور پارے کی طرح بے چین طبیعت کے باعث  لوح ایام پر اس طرح اپنی عظمت کا نقش قائم کرتے ہیں کہ  ان کی روشنی سے ایک خطہ نہیں،ایک علاقہ نہیں بلکہ سرحدوں سے بے نیاز ایک جہاں اور ایک عہد روشن ہوجاتا ہے،

علمی وتحقیقی،اصلاحی اور فن حدیث کی دنیا کی ایک مایہ ناز،یگانہ روزگار،اور برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی نہایت معتبر ،مستند،اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے نہایت قابل اعتماد ہستی استاذ محترم حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند انہیں تاریخ ساز اور عہد ساز لوگوں میں تھی،  زمانے کی پیروی آپ نے نہیں بلکہ زمانہ آپ کی اتباع پر مجبور ہوا، آپ تاریخ سے نہیں بلکہ تاریخ آپ کی وجہ سے عظمت پر پہونچی،   آپ عظمتوں کے اس آسمان پر تھے جہاں نظر اٹھاتے ہوئے اچھے اچھے قدآوروں کی ٹوپیاں گر جاتی ہیں،  عظمتیں یقینا فطرت کا عطیہ ہیں مگر اس کے پیچھے حرکت وعمل اور ایثار وقربانی کی طویل تاریخ پوشیدہ ہوتی ہے حضرت مفتی صاحب کی پشت پر بھی جد و جہد کی ایک وسیع دنیا ہے'، ایک طویل قربانیوں کا سفر ہے'، علم کے صحراؤں کی آبلہ پائی ہے'، دشت جنوں کی آوارگی ہے'،
فکر وتحقیق کے سمندروں کی غوطہ زنی ہے'،دنیا جب خوابوں کے مزے میں ہوتی تو یہ کتابوں کے سفر میں، اسلامی تاریخ کی نادرہ روزگار شخصیات کی دریافت،ان کے جہان ادراکات کی فتوحات، حدیث وفقہ،  تفسیر ورجال، فلسفہ وادب،
تاریخ وتہذیب،عمرانیات وعرفانیات،کی سیاحتوں میں راتوں کو قربان کرتے رہتے تھے، جس وقت دنیا اپنے مفادات میں مست تھی یہ درد کے صحرا میں بیٹھ کر
انہیں عظمتوں کے شاداب علاقوں،اور تعمیر زندگی کے نخلستانوں کی خبر دیتے رہے، یہ نفس پرستی کے تاریک ماحول میں اشکوں کے چراغ جلاتے رہے، یہ بے بسی میں، کلفتوں میں، معاشی تنگیوں میں، اور حالات کی چیرہ دستیوں میں رہ کر بھی ملت اسلامیہ کو نوید حیات کے نسخے بتاتے رہے،  ان نسخوں کے نتیجے میں،جانے کتنے دلوں میں فکر و فن کے پودے اگے، کتنی ذہن کی بنجر زمینوں میں بہار آئی، اشکوں کے چراغ سے کتنے قلوب روشن ہوئے،کتنی زندگیاں منور ہوئیں ، ان کی علمی فتوحات اور تدریسی خدمات کے باعث کتنے دیار اجالوں میں آئے، کتنے خطوں سے تاریکیاں کافور ہوئیں، اس کا اندازہ کیسے لگایا جائے،  آسمان کی بارشوں کے قطرے شمار کرنا کیونکر ممکن ہے، روشنیوں کی پیمائش ناکام سعی کے علاوہ اور کیا ہے'،

حضرت مفتی صاحب عالمی شہرت کے حامل تھے پھر بھی ان کے نام سے ذہن اس وقت آشنا ہوا جب عمر کا کارواں عربی تعلیم کی چوتھی جماعت میں پہونچا، دارالعلوم دیوبند پہونچنے کے بعد ان کی عظمت کا ستارا نظر آیا، اور وہیں ان کی شخصیت کی اہمیت سمجھ میں آئی ۔ طویل القامت، معتدل جسم،گورا اور صاف چہرہ، روشن پیشانی، آنکھوں میں فراست ایمانی کی چمک،  ناک متوسط، ڈاڑھی بھری ہوئی نہ بہت ہلکی پھلکی اور نہ ہی بہت گھنی، سر پر عربی سفید رومال،
جسم پر عربی جبہ،گفتگو میں ٹھہراؤ، طبیعت متانت وسنجیدگی کا نمونہ مگر ایسی خشک بھی نہیں کہ جہاں زندگی کا نام ونشان بھی نہ ہو،اس کی جھلک اکثر درسگاہوں میں دیکھنے کو ملتی کہ دوران درس آپ موضوع کے لحاظ لطائف کے ذریعے ماحول کو زعفران زار کرتے رہتے۔ عربی ہفتم میں اگرچہ ان کے پاس ہمارا کوئی پیریڈ نہیں تھا باوجود اس کے کبھی کبھی ان کی کشش اور شخصیت کا سحر دارالحدیث میں ہمیں کھینچ لاتا۔۔دورہ حدیث میں پہونچنے کے بعد باضابطہ ان  کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ،درس میں ان کی انفرادیت ان کے علم کی وسعت اور ان کی محدثانہ شان سورج کی طرح جلوہ آرا تھی، تدریسی صلاحیت میں انہیں کمال حاصل تھا، وہ رجال کا معاملہ ہو یا فقہ کا حدیث کی معرکۃ الآرا بحث ہو کہ
علم کلام کے پیچیدہ مسائل ،وہ ہر موضوع پر کلام فرماتے اور اس طرح تشریح کرتے کہ مسائل بے غبار اور مطالب آئینہ ہوجاتے،ان کی اسی صلاحیت کی وجہ سے دوران تعلیم دارالعلوم کی انتظامیہ نے معین مدرس کی حیثیت سے تقرر کر لیا تھا اور فراغت کے چند ہی سال بعد شوری کے فیصلے سے انہیں بحیثیت استاد گجرات سے بلا لیا گیا۔ وہ فیض رساں مدرس تھے، یہی وجہ تھی کہ ان کے درس میں اگر ذرا بھی تأخیر ہوئی تو پھر کلاس میں بیٹھنے کی جگہ نہیں مل پاتی تھی،ان کے تلامذہ  نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اکثر دینی علوم اور اسلامی خدمات میں مصروف ہیں۔

حضرت استاذ العلماء مفتی سعید صاحب صرف مدرس نہیں تھے بلکہ وہ ایک بہترین  فقیہ تھے،دیدہ وہ ور مفتی تھے، بصیرت مند مصنف تھے، ایک عظیم محدث تھے، حدیث کے بہترین شارح تھے، اور ایک زبردست محقق اور ساتھ ساتھ علم کلام کے دریائے لامحدود کے شناور بھی تھے، انھوں نے درسگاہوں میں علم کی تشریح وتوضیح کے ساتھ ساتھ قرطاس و قلم کے ذریعے بھی اسلامی تعلیمات کی حفاظت کا سامان پیدا کیا، ان اوصاف و کمالات کا اثر تھا کہ آپ کو ترجمان دارالعلوم اور فکر دیوبند کی حیثیت سے بھی جانا گیا۔ آپ نے حدیث کی شروحات کے علاوہ مختلف اسلامی موضوعات پر کتابیں تصنیف کیں، وہ اردو دنیا میں وہ تمام تصنیفات مقبولیت کے مقام پر پہنچیں، مثلأ


تفسیر میں ہدایت القرآن،الفوز الکبیر کی تعلیق وتشریح، مبادئ الفلسفہ، مفتاح التہذیب،محفوظات تین حصے، کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے'،حیات امام داؤد، مشاھیر محدیثین۔
حیات امام طحاوی،   اسلام تغیر پذیر دنیا میں   ،نبوت کے انسانیت کو کیا دیا،جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں پڑھا جانے والا مقالہ،حرمت مصاہرت،    تہذیب المغنی ،المغنی کی عربی شرح۔ تحفت الالمعی شرح ترمذی آٹھ جلدوں میں،۔ تحفۃ القاری شرح صحیح البخاری بارہ جلدوں میں، رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجت البالغہ وغیرہ ہیں' ان کتابوں کے علاوہ
دسیوں کتابیں آپ نے لکھی ہیں جس میں سوانح حیات بھی ہیں'شروحات بھی، رد ابطال بھی ہیں اور اثبات حق کے موضوع پر بھی، مؤخر الذکر تصنیف رحمۃ اللہ الواسعہ سات ضخیم جلدوں میں پھیلی ہوئی ہے یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شہرہ آفاق تصنیف حجت البالغہ کی تشریح ہے'جو ڈھائی سو سال سے کسی ایسے مفکر اور اہل قلم کی منتظر تھی جو قران وحدیث کے علوم کے ساتھ ساتھ فلسفہ اسلامی،اور حکمت ہائے احکامات شرعیہ کے دشت کا بھی سیاح ہو، مفتی صاحب نے یہ شرح اس انداز سے لکھی ہے کہ شاہ صاحب کی تمام مراد اور ان کی عبارتوں کی تمام پیچیدگیاں آشکار ہوگئی ہیں ،مفاہیم ومطالب تک سفر کرنے کیلئے جہاں پہلے ذہنی کاوشوں اور اذیتوں کا طویل سفر کرنا پڑتا تھا باوجود اس کے منزلوں کا سراغ نہیں مل پاتا تھا،اس شرح نے اذہان کے اس لمبے سفر سے نجات دے دی، یہ کتاب جب منظر عام پر آئی تو علمی دنیا میں ایک شور مچ گیا، حسن اتفاق سے اس وقت ہم دارالعلوم دیوبند ہی میں زیر تعلیم تھے، نگاہوں نے اس وقت لوگوں کی زبانوں پر مفتی صاحب کے اس عظیم کارناموں کے نعرے دیکھے، اڑتے ہوئے تہنیتوں اور مبارکباد یوں کے ستارے دیکھے، سماعتوں نے فضاؤں میں اس سے متعلق زمزمے سنے، حقیقت یہ ہے کہ یہ تصنیف مفتی صاحب کا شاہکار کارنامہ ہے، ایسا کارنامہ؟  کہ اگر صرف ان کی فتوحات صرف اسی کارنامے میں محصور ہوتیں تو بھی ان کی عظمتوں کا ستارہ علمی وتحقیقی افق پر ہمیشہ کے لیے رخشندہ رہتا۔۔

 حضرت مفتی صاحب 1940/مطابق 1360ھ کو آبائی وطن کالیڑہ شمالی گجرات پالنپور میں پیدا ہوئے،گھرانہ اگرچہ علمی حوالے سے کوئی شناخت نہیں رکھتا تھا لیکن دیندار ضرور تھا، ماحول کے اسی اثر کے نتیجے میں آپ کی ابتدائی تعلیم عام روایات کے مطابق کالیڑہ کے مکتب ہی ہوئی بعدازاں عربی وفارسی کے لئے دارالعلوم واقع چھاپی گجرات گئے جہاں آپ کے ماموں مولانا عبدالرحمن صاحب عربی درجے کے استاد تھے انہیں سے فارسی کی کتابیں پڑھیں،اس کے بعد عربی مدرسہ جو پالن پور شہر میں واقع ہے اس میں داخل ہوئے، یہاں شرح جامی تک تعلیم کا سفر جاری رہا اس کے بعد مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا یہاں تین سال تک نحو صرف اور منطق وفلسفہ کی کتابیں پڑھ کر 1380ھ میں دارلعلوم دیوبند تشریف لائے اس دارالعلوم دیوبند میں علم وفضل کے آفتاب و ماہتاب کی ایک کہکشاں آباد تھی، آپ نے اس سے اپنی صلاحیتوں کے مطابق جی بھر کر اکتساب فیض کیا،خاص طور سے حضرت مولانا سید حسن دیوبندی،
 مولانا عبد الجلیل کیرانوی، مولانا اسلام الحق اعظمی، مولانا قاری طیب صاحب دیوبندی، حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادی، حضرت علامہ ابراہیم بل یاوی ،شیخ محمود عبدالوہاب صاحب مصری،اور مفتی مہدی حسن شاہجہاں پوری رحمہم اللہ تعالیٰ سے علمی تشنگی کو دور کیا اور 1382ھ میں پہلی پوزیشن سے فراغت حاصل کی علمی تڑپ تو تھی ہی قدرت نے صلاحیت بھی دی تھی اس کا تقاضا تھا کہ یہ سفر جاری رہی رہے وقت کی آواز پر آپ نے افتا کی درخواست دی اور منظور ہوگئی اور یہ منزل بھی امتیازی شان سے سرکر لی،یہانتک کہ انتظامیہ نے معین مدرس کے لئے منتخب کرلیا۔۔۔
تعلیمی مرحلے سے فارغ ہوتے ہی حضرت علامہ بل یاوی کے واسطے دارالعلوم اشرفیہ راندیر میں تدریسی خدمات میں مشغول ہوگئے،اور 1384سے 1393ھ تک 9سال تک اس ادارے کو اپنے فیضان سے سیراب کرتے رہے، اسی دوران دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے بحیثیت استاذ آپ کا انتخاب کیا اور آپ نے سعادت مندی کے تصور میں قبول کرکے اسی وقت سے تدریسی خدمات پیش کیں اور زندگی کی آخری سانس تک اس سے وابستہ رہے، اور اس شان سے رہے اس قدر علمی و فکری تحقیقی حوالے سے جد وجہد اور سرگرمیاں قائم کیں، اس انداز سے علم وکتاب کی تشریحات کیں، اس انوکھے طرز ادا میں حدیث وتفسیر کی تقریریں کیں، دوران تدریس علم کے وہ لولوو مرجان لٹائے کہ ایک دنیا آپ کی شیفتہ ہوگئی،ایک عالم آپ کا گرویدہ ہوگیا، نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط آپ کی تدریسی، تشریحی، تربیتی،  اصلاحی،تقریری ،اور تصنیفی خدمات کا جائزہ اس مختصر سی تحریر میں کیسے لگایا جائے سوائے اس اعتراف اور خراج عقیدت کے اظہار کے،

جان کر منجملہ خاصان میخانہ تجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

زندگی کے نصیب میں موت اسی وقت سے کاتب تقدیر نے لکھ دی تھی جب اسے وجود میں لانے کا ارادہ کیا تھا، جس طرح کائینات کو ایک مضبوط نظام اور مستحکم اصول میں جکڑ دیا گیا ہے، ہونا نہ ہونا سب ہوکر رہتا ہے'، دریا پہاڑوں سے نکلتا ہے'اور سمندر سے مل کر فنا ہو جاتا ہے، آسمان بارش برساتا ہے ،پودے اگتے ہیں ،نشوونما پاتے ہیں، اور آفتاب کی تمازت اس کی شادابیاں چھین لیتی ہے'، سارے قوانین مرتب اور اصول مقرر ہیں کہ ہر آغاز کا ایک انجام اور ہر انجام کسی ابتدائی منزل پر رونما ہوتا ہے۔

اس قانون کے تحت مفتی صاحب کی زندگی بھی مخصوص ومتعین تھی وہ جانے کے لئے ہی آئے تھے مگر ان کے کارناموں ان کی خدمات اور ان کی بلندیوں نے اس رحلت کو حادثے کی صورت دے دی ہے' ،ایک غل ہے کہ دنیا علمی حوالے سے یتیم ہوگئی ہے، ایک شو رہے کہ طالبان علوم نبوت ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگئےہیں ، علم کی ایک بساط تھی جو لپیٹ دی گئی، فکر وتحقیق کا ایک سورج تھا جو روپوش ہوگیا،
کل ایک گروپ میں خبر آئی تھی کہ مفتی صاحب کی طبیعت اب زیادہ خراب ہے وہ  ممبئی میں علاج کے سلسلے میں  اقامت پذیر تھے درمیان میں طبیعت سنبھل گئی تھی،لیکن کل کی خبر سن کر طبیعت میں بہت اندیشے اور وسوسے پیدا ہوگئے، کل انہیں سانس کی تکلیف تھی اور آجکل یہ تکلیف موت کا الارم ہے'
صبح میں اٹھا تو ان رحلت کی خبر ملی اس وحشت انگیز وصاعقہ اثر خبر نے طبیعت میں افسردگی پیدا کردی، دل یہ سوچ کر تڑپ کر رہ گیا کہ حکومت کے بے بصیرت اقدام قفل بندی کے باعث آخری زیارت اور
قبر پر حاضری بھی دشوار ہوگئی اور اس سعادت سے بھی زندگی محروم رہی۔مفتی صاحب جوگیشوری ممبئی میں ہی ایک ہاسپٹل میں اچھی نگہداشت میں ایڈمٹ تھے اور وہیں کی قبرستان ان کی آخری آرامگاہ بھی بنی'، حضرت مفتی صاحب یقیناً اس عالم مثال سے رحلت کرگئے مگر اپنے کارناموں سے،فتوحات سے علم کے کارواں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے،موت عام لوگوں کے لئے اگرچہ گمنامی کا ذریعہ ہے مگر تاریخ ساز لوگوں کے لئے تو یہی موت اصل زندگی اور جاودانی کا دروازہ ہے'،  وہ زندگی جو لوگوں کے دلوں میں بستی ہے'، ذہنوں میں الفتوں کا دیپ جلاتی ہے، عظمتوں کے چراغ روشن کرتی ہے' ،
آتی ہی رہے گی ترے انفاس کی خوشبو
گلشن تری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
مسجد انوار گوونڈی ممبئی 8767438283

Comments