Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 12, 2020

بھارت کا نیپال سے سڑک پر تنازع اور چین کے فوجیوں سے جھڑپ، معاملہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واٸس ‏آف ‏امریکہ ‏کی ‏تفصیلی ‏رپورٹ۔

ریاست اتراکھنڈ کے پتھورا گڑھ ضلع میں ایک سڑک کی تعمیر بھارت اور نیپال کے درمیان سرحدی تنازع کا سبب بن گئی ہے۔ نیپال کا دعویٰ ہے کہ یہ سڑک اس کے علاقے سے گزرتی ہے جب کہ بھارت اس کے دعوے کی تردید کر رہا ہے۔

نٸی دہلی /صداٸے وقت /ذراٸع /١٢ مٸی ٢٠٢٠۔
============================
اترا کھنڈ کے پتھوڑا گڑھ۔کے علاقے۔دھارچولہ سے لیپو لیکھ کے علاقے تک جانے والی اس سڑک کا افتتاح بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے 8 مئی کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کیا تھا۔
افتتاح کے اگلے ہی روز نیپال کے اپوزیشن رہنماؤں نے اس معاملے کو اٹھایا اور حکومت سے اپنا مؤقف واضح کرنے کا کہا۔ ایک روز کے بعد نیپال کی وزارتِ خارجہ نے بھارت کے اس اقدام پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے اسے یک طرفہ کارروائی قرار دیا۔
نیپال کی حکمراں جماعت 'نیپال کمیونسٹ پارٹی' نے ایک بیان میں کہا کہ سڑک کی تعمیر نیپال کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ کٹھمنڈو میں بھارتی سفارت خانے کے باہر احتجاج بھی کیا گیا۔
واضح رہے کہ لیپو لیکھ کا علاقہ 'لائن آف ایکچوئل کنٹرول' کے قریب ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان متنازع علاقے کی سرحد کو 'لائن آف ایکچوئل کنٹرول' کہا جاتا ہے۔ لیپو لیکھ کے دوسری طرف کا علاقہ کالا پانی کہلاتا ہے جو بھارت اور نیپال کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے۔
سڑک کی تعمیر سے متعلق بھارت کا کہنا ہے کہ اس راستے سے ہندو زائرین اپنے مقدس مقام کیلاش مان سروور تک باآسانی پہنچ سکیں گے۔ وہ سفر جو دو تین ہفتوں میں طے ہوتا تھا، اس سڑک کے کھلنے سے اب ایک ہفتے میں طے ہو جائے گا۔
بھارت نے نیپال کے احتجاج اور اس الزام کو فوری طور پر مسترد کیا کہ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ طویل عرصے سے جاری سرحدی تنازع کو نظر انداز کر رہی ہے۔
بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے ایک بیان میں کہا کہ بھارت، نیپال کے ساتھ اپنے قریبی اور دوستانہ تعلقات کے جذبے کے تحت سرحدی تنازعات مذاکرات سے حل کرنے کا پابند ہے۔
لیکن بھارت کا یہ بیان نیپال کو مطمئن نہیں کر سکا اور وہاں کے وزیرِ خارجہ پردیپ گیاولی نے اگلے روز نیپال میں بھارت کے سفیر ونے موہن کواترا کو وزارتِ خارجہ طلب کیا اور بھارت کے اقدام پر احتجاج کیا۔بعد ازاں بھارتی سفارت خانے کی جانب سے ایک ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ونے موہن کواترا نے سرحدی تنازع کے بارے میں بھارت کا مؤقف واضح کیا اور نیپال کے وزیر خارجہ کو بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کا جواب پیش کیا۔
خیال رہے کہ کالا پانی کے متنازع علاقے پر بھارت اور نیپال اپنا علاقہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ نیپال نے کسی مسئلے پر بھارت کے سفیر کو طلب کر کے تحریری طور پر احتجاج کیا ہو۔ اس معاملے پر دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کو چین کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔ چین کا 'بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ' اس علاقے میں آ گیا ہے۔ بھارت اور بھوٹان کے علاوہ خطے کے تمام ممالک اس پروجیکٹ کے شریک کار بن چکے ہیں۔
پروین ساہنی کہتے ہیں کہ نیپال، چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے۔ اس کا جھکاؤ بھی بعض معاملات میں چین کی طرف ہو گیا ہے۔ ان کے بقول ابھی تک نیپال پر صرف بھارت کا اثر تھا۔ لیکن اب اسے لگتا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی اپنے حساب سے چلا سکتا ہے۔ لہٰذا اس لیے نیپال نے سڑک کی تعمیر پر اعتراض کیا ہے۔
یک اور تجزیہ کار معین اعجاز کہتے ہیں کہ بھارت اور نیپال کے درمیان بڑے گہرے اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ چوں کہ نیپال ایک ہندو ریاست رہی ہے، اس لیے بھارت سے اس کے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ لیکن جب سے وہاں بادشاہت کا خاتمہ ہوا ہے اور ایک سیکولر حکومت آئی ہے، اس کے بعد حالات بدل گئے ہیں۔
معین اعجاز کے بقول اب دونوں ملکوں میں پہلے جیسے دوستانہ رشتے نہیں رہے۔کچھ دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب سے بھارت میں دائیں بازو کے نظریات کی حامل حکومت قائم ہوئی ہے، تب سے نیپال کے ساتھ رشتوں میں تلخی آنے لگی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ نیپال کا ہندو ریاست کا درجہ ختم ہو گیا اور دوسری وجہ یہ کہ نیپال کا جھکاؤ بعض معاملات میں چین کی طرف ہو گیا ہے۔تجزیہ کاروں کے خیال میں نیپال کی موجودہ حکومت بھارتی حکومت کو بہت زیادہ سہولت نہیں دینا چاہتی بلکہ وہ اس پر تنقید بھی کرتی ہے۔ وہ زیادہ مصلحت سے کام نہیں لینا چاہتی۔ تاہم اب بھی دونوں ملکوں میں پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر آزادانہ آمد و رفت کی سہولت قائم ہے۔ البتہ نیپال کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ اب وہ بھارت سے متصل اپنی سرحد پر سیکیورٹی میں اضافہ کریں گے۔
دوسری جانب اسی دوران سکم میں نکولا کے مقام پر چین اور بھارت کی افواج میں ٹکراؤ ہوا اور دونوں ملکوں کی فورسز میں ہاتھا پائی اور پتھراؤ کی نوبت آ گئی۔ مذکورہ واقعے میں دونوں طرف کے کچھ جوان زخمی ہوئے، تاہم بعد میں بات چیت کے ذریعے اس معاملے کو حل کیا گیا۔
اسی دوران وہاں چینی ہیلی کاپٹر بھی دیکھے گئے جنھوں نے کنٹرول لائن عبور نہیں کی تھی۔ بعد ازاں بھارتی فضائیہ نے بھی اپنے ہیلی کاپٹر اس علاقے کی طرف روانہ کیے۔
ین ساہنی کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب پوری دنیا 'کووِڈ 19' کے خلاف لڑ رہی ہے، ایسے تنازعات پیدا ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ البتہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین موقع بہ موقع بھارت کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ وہ اس سے طاقتور ہے۔
ان کے مطابق چین اور بھارت کے درمیان پہلے 23 متنازع علاقے تھے۔ اب نکولا چوبیسواں متنازع علاقہ بن گیا ہے۔
پروین ساہنی کے بقول ان تمام علاقوں کو چین نے متنازع بنایا ہے۔ چین بھارت کو یہ دکھاتا رہتا ہے کہ میں نئے متنازع علاقے بنا سکتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں جانب کی فوجوں میں جو ہاتھا پائی ہوئی ہے، وہ بلا وجہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ چین کی جانب سے ایک اور متنازع علاقہ بنانے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔