Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 3, 2020

مسلہ ‏ستون ‏کا ‏نہیں ‏بلکہ ‏عمارت ‏کا ‏ہے۔!!!


از/ ڈاکٹر سلیم خان/ صداٸے وقت۔
=============================

مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ  کو جمہوری نظام کے تین ستون کہا جاتا ہے حالانکہ یہ تو ہر سیاسی نظام کی ضرورت ہے ۔اس دلیل کا  جواب  یہ ملتا ہے کہ  جمہوری نظام میں یہ تینوں ادارے بالکل آزاد اور خود مختار ہوتے ہیں ۔  یہ بات اگر واقعی لازمی ہے تو پھر  تسلیم کرنا پڑے گا  کہ وطن عزیز میں  اس  نظام  کا جنازہ اٹھ چکا  ہے۔ سی بی آئی کے ہنگامہ میں سب کو پتہ چل گیا کہ مقننہ کے آگے انتظامیہ کی کیا حیثیت ہے ۔ بابری مسجد کے فیصلے نے بتا دیا کہ عدلیہ میں کتنا دم خم ہے ۔ چوتھے   اضافی ستون ذرائع ابلاغ کو  مسلمانوں کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔ مرکز نظام الدین کو نچوڑتے نچوڑتے تھک گئے تو باندرہ میں بھیڑ کے سامنے کھڑی  جامع مسجد مل گئی ۔ وہاں سے نکلے تو ڈاکٹر ظفرالاسلام خان  ہاتھ آ گئے۔ آج تک تیجسوی سوریا کے بدنامِ زمانہ ٹویٹ پر تو کوئی کارروائی  نہیں ہوا لیکن ڈاکٹر صاحب کے خلاف بغاوت کی ایف آئی آر درج ہوگئی حالانکہ وہ اپنے بے ضرر ٹویٹ پر معذرت بھی پیش کرچکے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر ظفرلاسلام کو جعفرآباد کے مظلومین کے حق میں آواز اٹھانے کی سزا دی جارہی ہے۔    
چوتھے جمہوری ستون  کے  دوغلے  پن کو سادھووں کے قتل نے  پوری طرح بے نقاب کردیا۔ ْپالگھر کے معاملے میں آسمان سر پر اٹھانے والے ٹی وی چینلس نے بلند شہر میں سادھووں کے قتل  کی صرف خبر دینے پر اکتفاء کیا ۔ اس پر کسی بڑے چینل پر  بحث نہیں ہوئی ۔ ایک دن کے اندر یہ خبر  ذرائع ابلاغ میں  گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب  بھی ہو گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں  ۔ اس کے برعکس  پالگھر پر وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کی صفائی کے باوجود معاملہ کافی طول  دیا گیا ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ  کی وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے فون  تفصیل معلوم کرنے سے  بی جے پی والوں کو اشارہ مل گیا ۔ اس کے بعد  ہر کسی نے دامے درمےسخنے قدمے اس میں اپنا حصہ لگایا۔ کوئی اس کو مسلمانوں سے جوڑنے  میں لگ گیا  تو کسی نےاشتراکیوں کی حرکت ثابت کرنے کی  کوشش کی ۔ ایک زمانے میں یہ قبائلی سرخ پرچم ضرورلہراتے تھے لیکن  اب  تو  بھگوا وستر دھارن کرچکے ہیں ۔   سمبت پاترا نے سیکولر لوگوں کی خاموشی پر سوال کھڑا کیا تو ارنب اس کو سونیا کے توسط سے اٹلی تک پہنچا دیا  لیکن بلند شہر کے سانحہ کے بعد ہر طرف سمشان گھاٹ کی خاموشی چھائی گئی ۔ لوگ پہلے عرفان خان اور پھر رشی کپور کی تعزیت میں لگ گئے۔ 
ذرائع ابلاغ کے اس دوغلے پن کے باوجود جب شیکھر گپتا  جیسے سینئر صحافی سے میڈیا کے تفریق و امتیاز کے بارے میں سوال کیا گیا  توانہوں نے بڑی ڈھٹائی  سے اس کا انکار کرتے ہوئےسارا الزام  الٹا ناظرین کے سر منڈھ دیا ۔ انہوں  کہا آج کل لوگوں کی قوت برداشت کم ہوگئی ہے۔  کوئی اگر  ہماری  رائے سے مختلف خیال پیش کرے تو ہم اسے  بکاو صحافی قرار دے دیتے ہیں ۔ شیکھر گپتا نے اس طرح اپنی برادری  کی وکالت کرتے ہوئے سارے صحافیوں کو دودھ کا دھلا ثابت کردیا  ناظرین اور قارئین  کو قصوروار ٹھہرا دیا۔  اس  صحافی برادری کا تو بھلا نہیں ہوا مگر شیکھر گپتا کے پتلو ن کے نیچے چھپی خاجی نیکر  ظاہر ہوگئی  اور پتہ چل گیا فی الحال وہ کس خیمہ میں ہیں ۔ورنہ معمولی سے معمولی  سانحہ پر ویڈیو جاری کرنے والے گپتا جی   کی  ارنب اور چورسیا   کی بدتمیزی  کو نظر انداز کرنا کس بات کی نشاندہی کرتا   ہے ۔ کیا اس چشم پوشی  کے لیے بھی ناظرین ذمہ دارہیں۔    
بلند شہر اور پالگھر کے معاملات میں مشیت ایزدی  کی کار فرمائی قابلِ توجہ ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر سہارنپور کا واقعہ پہلے رونما ہوا ہوتا اور اس کے بعد پالگھر والی واردات ہوتی تو   اسے بھی نظر انداز کرنا میڈیا کی مجبوری بن جاتی ۔  اس صورت میں اگر کوئی اسے اچھالنے کی کوشش کرتا تو اتر پردیش کی مثال دے کر اس کو رفع دفع کردیا جاتا ۔ اس طرح ذرائع ابلاغ  کے اندر پایا جانے والا بغض و عناد اور کمینہ پن ظاہر  نہیں ہوپاتا۔ ویسے  اگر سہارنپور کا واقعہ ایک آدھ سال کے بعد وقوع پذیر  ہوتا تو لوگ پالگھر کو بھول چکے ہوتے اور دونوں واقعات کا موازنہ مشکل ہوجاتا ،  لیکن ایسا ہوا کہ  ابھی  پہلے سانحہ پر میڈیا کاننگا ناچ  ختم  بھی نہیں ہوا تھا کہ  دوسری واردات  سامنے آ گئی  اور ہر کوئی ان دونوں کو جوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ بلند شہر میں ۶ ماہ قبل ایک بھیڑ نے پولس انسپکٹر کو ہلاک کردیا تھا ۔ آج کوئی اس کو یاد نہیں کررہا ہے لیکن سب اسے پالگھر سے جوڑ رہے  ہیں ۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ جس دن ارنب گوسوامی کو پالگھر کی تفتیش کے لیے بلایا  گیا اسی دنہ دوسرا سانحہ منظر عام پر آگیا  اور دونوں معاملات میں اس کے رویہ کا فرق کچھ  ا س طرح کھل کر سامنے آیا کہ یار دوستوں  نے ٹوئیٹر پر یہاں تک پوچھ لیا  کہ اب کون ناگپور میں خبر دے کر شاباشی لے رہا ہے؟ ذرائع ابلاغ کے اس  جانبدارانہ رویہ کو  نظام جمہوریت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ اول روز  ہی لامذہبی (سیکولر) جمہوریت  خدا اور وحی کا انکار کرکے مادر پدر آزاد ہوگئی۔ اس نے بڑی چالاکی سے عوام کو مقتدرِ اعلیٰ قرار دے کر اس پر حکمراں  منتخب کرنے کی ذمہ داری ڈالی  ۔ عوام نے خوش ہوکراپنے نمائندے منتخب کردیئے ،   لیکن اس کے بعد آئندہ انتخاب تک وہ اپنے   سارے اختیارات کو   منتقل  کرکے  پہلے کی طرح بے بس ہوگئے۔
جمہوری نظام میں  سرکار کی  من مانی کو روکنے کے لیے  حزب اقتدار کے بالمقابل حزب اختلاف کو چیک ایند بیلنس کی خاطر آئینی حیثیت دی گئی۔  حزب اختلاف کے پاس چونکہ کو انتظامی  ذمہ داری نہیں ہوتی اس لیے وہ عوام کے دکھ درد سنتی ہے اور عیش    ومستی میں ڈوب کر استحصال کرنے والی سرکار کو اس  کے وعدے یاد دلاتی ہے۔ اس طرح عوام کے غم و غصے کا فائدہ اٹھا کر آئندہ انتخاب میں کامیابی کی سعی بھی  کرتی ۔ اس میں کبھی تو اسے ناکامی ہوتی ہے اور کبھی وہ کامیاب  بھی ہوجاتی  ہے ۔ نئی سرکار کے بنتے ہی  نیا حزب اختلاف وجود میں آجاتا ہےجو عوام کی ہمدردیاں بٹورنے اور  پھر سے  اقتدار  حاصل کرنے میں جٹ جاتا ہے۔ اس طرح  اقتدار حکمرانوں کے دوطبقات میں گردش کرتا  رہتا ہے اور عوام اس  کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔  عام آدمی کے پاس  ہر پانچ سال بعد اپنی تائید یا غم وغصے کا اظہار کرنے کے علاوہ کوئی تیسرا متبادل نہیں ہوتا ۔ 
نظام جمہوریت  کے اندرعوام ، حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مثلث میں ذرائع ابلاغ کا  اضافہ کر کے اسے چوتھے صوبہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں ۔ سرکاری میڈیا  تو خیر سرکاری ہے لیکن نجی چینلس کا  انحصار عوام کی تائید پر ہوتا ہے۔  بازار کا اصول یہ کہ جس چینل  کے پاس جتنے زیادہ ناظرین ہوتے ہیں اس کے اشتہارات  کی نہ صرف    شرح زیادہ ہوتی بلکہ اس کے پاس  مشتہر بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس لیےعام لوگوں  کے مسائل کو پیش کرکےان  کی حمایت حاصل کرنا میڈیا  کی مجبوری اور تجارتی ضرورت  ہوتی ہے ۔   عام حالات میں  ہر چینل عوام کا اعتماد حاصل  کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانا چاہتا ہے۔  اس طرح حزب اختلاف اور ذرائع ابلاغ کے مقاصد ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں ۔
 اس  عام صورتحال کے برعکس  ہندوستان میں خاص حالات بن گئے ہیں۔ نجی چینلس کا انحصار فی الحال  حکومت پر بہت زیادہ بڑھ گیا  اور مستقبل قریب کی مندی میں اور  بھی زیادہ بڑھ جائے گا۔بی جے پی کے پاس بہت زیادہ چندہ جمع ہے  اور  ویسے بھی سرکار  سب سے زیادہ اشتہار دیتی ہے اس لیے میڈیا کاایک  بڑا طبقہ گوں ناگوں وجوہات کی بنا پر  عوام کے بجائے حکومت کا وفاداربن گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ عوام کے مسائل  و بے چینی   کو پیش کرنے کے بجائے انہیں بہلانے پھسلانے میں مصروفِرہتا  ہے۔  اس  نے مختلف جائز و ناجائز طریقوں سے لوگوں  کی توجہ  سرکاری ناکامیوں سے ہٹانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے رکھی  ہے۔  یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں  جمہوری نظام کا  یہ چوتھا ستون دوسرے  یعنی حکومت کا ہمنوا بن گیا ہے ۔ اس کا ہدف تیسرے  ستون یعنی حزب اختلاف سے پہلے ستون عوام کو برگشتہ کرنا ہوکر رہ گیاہے ۔  اب  مسئلہ کسی ایک ستون کا نہیں بلکہ پوری عمارت کا ہوگیا ہے۔ 
اب  سوال یہ ہے کہ   اس  نازک صورتحال سے کیسے  نکلا جائے ؟  اس بیماری  کے مستقل  علاج   کرنے کے لیے فتنے کو جڑ سے اکھاڑنا ہہوگا ۔  سب سے پہلے     عوام کی اس غلط فہمی کو دور کرنا پڑے گا  کہ مقتدرِ اعلیٰ ہے ۔ اس فاسد نظریہ کے  سحر سے نکلے بغیر انسانوں کو ان سے رب  اور اس کے ضابطۂ حیات سے جوڑنا ممکن نہیں ہے ۔  عوام کو یہ بات سمجھانا ہوگا کہ   مقتدر اعلیٰ تو صرف اور صرف خدائے واحد کی ذاتِ والا صفات  ہے ۔ عوام، حزب اقتدار، حزب اختلاف اور ذرائع ابلاغ سب  کو اس کی مرضی کا تابع ہونا چاہیے  ۔ اس کے بغیر حقیقی  معنیٰ میں مساوات قائم نہیں  ہوسکتی۔ خدائے بزرگ و برتر کے آگے جوابدہی کا یقین ہی اس استحصال کے  کھیل کو  روک سکتا ہے۔ اس کے بغیر   عوام الناس  موجودہ    جابرانہ سیاسی  نظام سے چھٹکارہ نہیں حاصل کرسکتے۔ اس نظام کے تحت   عوام کو مطلق العنان ہونے کا فریب دے کر ان کے نمائندے اپنی من مانی کررہے  ہیں  ۔ اس مقصد  کے حصول کی خاطر  علامہ  اقبال کے اس شعر کے حقیقی مفہوم  کو سمجھنا اور سمجھانا پڑے گا کہ ؎
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے ایک وہی باقی بتانِ آزری