Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 2, 2020

تین مئی آزادی صحافت کا عالمی دن ہے!!!

— 
تین مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد آزادی صحافت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور دنیا کی حکومتوں کو یاد دہانی کرانا ہے کہ وہ آزادی اظہار کا احترام کریں جو انسانی حقوق کے 1948 کے عالمی اعلامیے یا منشور کے آرٹیکل 19 کے تحت دی گئی ہے۔

از /قمر عباسی جعفری ۔۔بی بی سی اردو/صداٸے وقت / ٣ مٸی ٢٠٢٠۔
=============================
 آج اگر دنیا پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آزادی صحافت یا آزادی اظہار کی ایک تعریف پر دنیا متفق نہیں ہے۔ صحافی اور آزادئ اظہار کے حامی اس کی کوئی تعریف کرتے ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کے مالکان اپنے تجارتی مفادات کے تحت اس کی کوئی اور تعریف کرتے ہیں اور حکومتیں اپنے مقاصد کے لئے، خاص طور سے قومی سلامتی کے نام پر اس کی کوئی اور توضیح کرتی ہیں۔
سینٹر فار کمیونٹی اینڈ ایتھینک میڈیا سٹی یونیورسٹی نیویارک کے ڈائریکٹر جہانگیر خٹک کہتے ہیں کہ دنیا کے ملکوں میں قوم پرست حکومتوں کی ایک لہر سی آئی ہوئی ہے۔ اور ایسی حکومتوں کا پہلا ہدف میڈیا ہوتا ہے۔ اگر اس وقت دیکھا جائے تو دنیا میں آزادی صحافت کی صورت حال میں کوئی بہتری نہیں بلکہ گراوٹ آئی ہے۔ اور پوری دنیا میں آزاد میڈیا یا جسے روائتی میڈیا یا لیگل میڈیا کہا جاتا ہے، اس کے لئے سپیس کم ہوئی ہے۔ جب کہ میڈیا کے میدان میں بطور مجموعی توسیع ہوئی ہے کیونکہ اب سوشل میڈیا بھی اسی زمرے میں خود کو شامل کرنے لگا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیشتر مقامات پر میڈیا کمپرومائزڈ ہے۔ کہیں بڑے میڈیا ہاؤسز کے مفادات ہیں۔ کہیں حکومتوں کے مقاصد ہیں۔انہوں نے کہا کہ پھر آزادی صحافت کا معیار مختلف ملکوں میں الگ الگ مقرر کر لیا گیا ہے۔ جیسے مغربی ملکوں میں میڈیا حکومتوں کے ساتھ کسی بڑے تنازعے میں نہیں الجھتا۔ حکومتیں بھی اپنی ناپسندیدگی کے باوجود زبانی احتجاج تو کر لیتی ہیں۔ لیکن کوئی پابندی وغیرہ لگانے کی کوشش نہیں کرتیں۔
دوسری جانب پاکستان جیسے ملکوں میں اندرون ملک رپورٹنگ اتنی بھرپور نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہئیے اور اس بات کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے کہ میڈیا مالکان کے مفادات بھی مجروح نہ ہونے پائیں۔
انہوں نے کہا کہ دعوے بہت کئے جاتے ہیں آزادی صحافت کی پاسداری کے لئے، لیکن جب بات عمل کی آتی ہے تو معاملہ مختلف ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے اسکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے ڈین ڈاکٹر مغیث الدین کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ آج دنیا کے مختلف خطوں میں آزادی صحافت کی صورت حال مختلف ہے اور معیار بھی مختلف مفادات رکھنے والوں کے نقطہ نظر سے مختلف ہیں۔ اور اس کے کئی ماڈل ہمیں نظر آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک مغرب کا ماڈل ہے جہاں سیاسی مقاصد کے لئے حقوق انسانی اور دوسرے مذاہب کے بارے میں زیادہ آزادی سے لکھا جاتا ہے۔
دوسرا چین اور سنگاپور وغیرہ کا ماڈل ہے جہاں پریس پوری طرح پابند ہے۔ پھر پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں کے ماڈل ہیں، جہاں پریس کے ساتھ ذمہ دارانہ صحافت کے تصور کا لاحقہ لگا کر اسے پابند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ایک ملی جلی کیفیت ہے۔ اور ہر متعلقہ فریق اپنے منتخب ایجنڈے کے مطابق کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
آزادی صحافت بلاشبہ بہت ضروری ہے لیکن ہر آزادی کے ساتھ کچھ شرائط اور کچھ حدود کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔