Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 9, 2020

کورونا ‏لاکڈاٶن ‏کے ‏بعد ‏کیا ‏نٸے ‏بھارت ‏سے ‏ہمارا ‏سامنا ‏ہونیوالا ‏ہے ‏؟

از/ ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی / صداٸے وقت۔
=============================
اس لاک ڈاون میں بے شمار کام اور بے شمار ذمہ داریاں بھی عائد ہو گئی ہیں ۔ اللہ کا شکر واحسان ہے کہ مسلم نوجوان مرد و خواتین لڑکے و لڑکیاں نہایت صبر و استقامت کے ساتھ ظلم وستم کو برداشت کرتے ہوۓ اپنی صلاحیت ,لیاقت اور اپنی استطاعت کے مطابق بلکہ اس سے زیادہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں شب وروز مصروف ہیں ۔ اہل خیر حضرات بھی دل کھول کر اپنا روپیہ فی سبیل اللہ خرچ کر رہے ہیں ۔ نوجوان , غریبوں کی مدد کرنے میں پیش پیش ہیں ۔خواتین اور لڑکیاں , مسافروں اور غریبوں کو کھانا کھلانے کا انتظام کررہی ہیں ۔یقیناََ سخت مرحلہ ہے ۔ حکومت بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر تو رہی ہے مگر صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اس کے انصاف کے پیمانے الگ ہیں ۔ ترجیحات جدا ہیں ۔ غیر مسلم دولت مندوں کے لیے پالیسی الگ ہے اور عام لوگوں کے لیے الگ ہے ۔ جب کہ مسلمانوں کے لیے تو بالکل ہی الگ ہے ۔ بالخصوص دہلی , ہریانہ اور اترپر دیش میں تو جنگل راج معلوم ہورہا ہے ۔ نیوز چینل اور سوشل میڈیا سے ایسا معلوم ہورہا ہے کہ کرونا وائرس کے ذمہ دار صرف مسلمان ہیں ۔ سڑکوں پر پولس انہیں پر لاٹھیاں برسارہی ہے , چھاپہ صرف مسلمانوں کے گھروں پر مارا جارہا ہے , کرونٹائین بھی صرف مسلمانوں کو کیا جارہا ہے ۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف مسلمانوں ہی کو ڈالا جارہا ہے ۔ غیر مسلم بھی ہوں گے مگر خبریں نہیں ارہی ہیں ۔ اگر ایسا کوئی چارٹ تیار کیا جاۓ جس سے یہ معلوم ہو کہ کون لوگ کتنی تعداد میں متاثر ہوۓ تو صحیح صورت حال سامنے آسکے گی ۔
 مسلم نوجوان لایق ستایش ہیں , انہوں نے اس موقع پر پورے ملک میں جس طرح سے اپنی شہری ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا اور مسلسل دے رہے ہیں , ان کا اعتراف نہ کرنا ان کی حق تلفی ہوگی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں سرکاری اور اکثر پرائیویٹ نیوز چینلوں نے فرقہ پرستی کا زہر پلانےاور پورے ملک کو مختلف طبقوں میں بانٹنے اور باہم ایک دوسرے کو لڑانے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی , وہیں بعض نیوز چینل اور سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلم و غیر مسلم افراد  انسانیت اور آپسی میل محبت کے ماحول کو باقی رکھنے کے لیے جان توڑ محنت کرتے رہے اور سچائی کو  تلاش کر کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے ۔ ایسے تمام لوگوں کی عزت افزائی کی جانی چاہیے ۔
     ایسا معلوم ہورہا ہے کہ اب کورونا لاک ڈاون کے بعد ایک نیے بھارت سے ہمارا سابقہ پیش آنے والا ہے ۔ کیا ہوگا اور کیسا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتاۓ گا مگر اس ملک کو پہلے سے کہیں زیادہ اخلاق وکردار , ایثاروقربانی, ایمان داری و دیانت داری , ہمدردی و محبت اور خبر گیری ودادرسی کی ضرورت ہوگی اور مسلمانوں کے لیے ایک سنہرا موقع اور وسیع میدان حاصل ہوگا جہاں وہ قدم قدم پر اپنے عمل سے کیریکٹر کے ,اعلی اخلاق کے چراغ روشن کرسکیں گے ۔ اس کے لیےابھی سے کمر کس لی جاۓ اور اس طور پر عزم مصمم کرلیا جاۓ کہ انشاء اللہ ہم ہرحال میں قرآن وسنت کو مضبوطی سے پکڑے رہیں گے ,ہر طرح کے سنگین حالات میں بھی دین اسلام پر قائم رہیں گے اور انسانوں کی انسانیت کی بنیاد پر خدمت کرتے رہیں گے اور اپنے عمل سے اسلام کا پیغام پیش کرتے رہیں گے ۔ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ ظلم وستم اور نا انصافی کی رات خواہ کتنی ہی بھیانک ,سیاہ اور طویل ہو , مگر اس کے بعد صبحِ نو ضرور طلوع ہوگی ۔ بس شرط ہے کہ سنجیدگی , متانت , وقار اور زبردست صبر و استقامت کے ساتھ اپنے نصب العین سے وابستہ رہ کر منزل تک پہنچنے کا سفر طے کرتے رہیں ۔ راہ کی بڑے سے بڑی چٹان بھی ہمارے حوصلوں کو شکست نہ دے سکے ۔
اس موقع پر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ اپنے اوپر لازم کرلیجیے ۔ صحابہؓ و صحابیات ؓ کی زندگیوں سے روشنی حاصل کیجیے , کہ یہ قرآن مجید کی عملی تفسیر ہیں اور ان سے وابستہ رہ کر ہمیں مشکل سے مشکل ترین مرحلوں میں رہنمائی اور حوصلہ ملے گا ۔
مرجائیں گے,ایمان کاسودا نہ کریں گے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہماری تمام ملی تنظیمیں , جماعتیں , افراد, علماء و دانشوران اور ان کی تمام خدمات تسلیم اور اپنی اپنی جگہ مسلّم ۔ مگر حالات کا تقاضہ ہے کہ ایک نئی قیادت کو تیار کیا جاۓ ۔ ہمارے بہت سارے بڑے ہی باصلاحیت افراد ہیں جنہیں کوئی پلیٹ فارم نہیں حاصل ہے ۔ پورے ملک سے دوچار سو لوگوں کی فہرست سازی کرکے ان کا کنونشن ممبئی , کلکتہ ,بنگلور یا چنئی میں منعقد کیا جاۓ اور ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان پر ذمہ داریاں ڈالی جائیں ۔ اتنے بڑے ملک اور اتنی بڑی مسلم امت کے لیے موجودہ چند جماعتوں کے ساتھ دو چار مزید پلیٹ فارم تیار ہوجائیں تو کوئی نامناسب عمل نہیں کہا جاۓ گا ۔ اس پر تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے ۔
اسی طرح غیر مسلم سماج سے خیر پسند افراد اور نوجوانوں سے اپنے مضبوط تعلقات بنانے اور ان کی خیر پسند صلاحیتوں کو بروۓ کار لانے کی حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے ۔
 اللہ تعالی ہماری مدد فرماۓ ۔ 
ڈاکٹر سکندرعلی اصلاحی  9839538225