Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 12, 2020

حضرت ‏علی ‏رضی ‏اللہ ‏عنہ کا یوم ‏شہادت۔

صداٸے وقت / 12 مٸی 2020 /١٩ رمضان ۔المبارک۔تحریر۔۔سیدہ شبنم رضوی۔
=============================

 حضرت علی علیہ السّلام کو 19 رمضان40ھ 660ءکو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا اس کو بھی کھلانا۔۔اگر میں صحتیاب ہوگیا تو میرا معاملہ ہے میں خود سمجھوں گا۔لیکن اگر میں نہ رہا تو تم لوگ سزا کے طور پر اس پر صرف ایک وار کرنا اس لٸے کہ اس نے بھی صرف ایک وار کیا تھا اور اسکے کسی عضو کو کاٹنا یا نقصان نہ پہنچانا۔
خلیفہ چہارم جانشین رسول وزوج بتول حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ""ابوالحسن""اور""ابو تراب""ہے۔ آپ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا ابو طالب کے فرزند ارجمندہیں۔ عام الفیل کے تیس برس بعد جبکہ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عمر شریف تیس برس کی تھی ۔ ۱۳رجب کو جمعہ کے دن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانۂ  کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ اسی لٸے انھیں مولود کعبہ بھی کہا جاتا ہے۔آ پ کی والد ہ ماجدہ کا نام حضرت فاطمہ بنت اسد ہے (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)۔
سیدہ فاطمہ کا نکاح حضرت علی کیساتھ ہجرت کے دوسرے سال (جب عمر شریف ۱۳ یا ۱۴ برس تھی)  ہوا۔۔حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ذریعے اکابر صحابہ سیدنا ابو بکر صدیق و سیدنا عمر فاروق و عثمان ابن عفان و سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور دیگر اصحاب کو پیغام بھیجا آپ کے حکم پر سب جمع ہو گئے اور آپ نے ایک خطبہ پڑھا جس میں حمد و ثنا کے بعد ترغیب نکاح کا مضمون تھا پھر فرمایا: ان اللّٰہ تعالٰی یا مرک ان تزوّج الفاطمۃمن علی۔حضرت حسن و حضرت حسین دونوں آپ کے بیٹے تھے۔
پچیس برس تک رسول کے بعد علی بن ابی طالب نے خانہ نشینی میں بسر کی 35ھ میں مسلمانوں نے خلافت ُ اسلامی کامنصب علی بن ابی طالب کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے پہلے انکار کیا، لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اس شرط سے منظو رکیا کہ میں بالکل قران اور سنت پیغمبر کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا۔ مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی خالص مذہبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا، آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہو گئے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا، آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا اور جمل، صفین اور نہروان کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں حضرت علی بن ابی طالب نے اسی شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر واحد و خندق وخیبر میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی۔ ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ جیسا دل چاہتا تھا اس طرح اصلاح فرمائیں۔ پھر بھی آپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی، مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے آپ شہنشاہ ُ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے، پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاناکھالیتے تھے۔ جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نے یہ چاہا کہ کچھ انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو خیر یہ بھی ہو سکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے۔ مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں، انتہا ہے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے اکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بھجادیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ہونا چاہیے۔ آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے۔ آپ اسلامی خزانے میں مال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے۔