Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 13, 2020

آخری ‏وقت ‏سلامت ‏میرا ‏ایمان ‏رہے ‏۔۔ایک ۔ایمان ‏افروز ‏تحریر ‏

   

از قلم / سرفراز احمد قاسمی(حیدرآباد )/صداٸے وقت۔
برائے رابطہ:8099695186   
==============================     
       اللہ تعالی نے ہم مسلمانوں پربے شماراحسانات اور رحم وکرم  کا معاملہ کیا ہے،ایسی بہت سی چیزیں دیکر انعامات واکرامات کی بارش فرمائی ہےجسکاہم تصور تک نہیں کرسکتے، یہ  سب صرف اپنے محبوب ﷺ کے صدقے اورطفیل میں ہمکو عنایت کی گئی ہے،ان سب نعمتوں کے بارے میں ایک جگہ قرآن میں ارشاد فرمایا گیا کہ"اگر تم میری نعمتوں کو شمار کرنا چاہو،گننا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے"اور یہ ساری نعمتیں کم قیمت کی نہیں بلکہ انتہائی قیمتی عطاکی گئی ہیں، جسکا ہم اندازہ نہیں کرسکتے،ایک ایک نعمتیں ایسی ہیں کہ اگر وہ گم ہوجائے، یااس میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو ہزاروں کوششوں کے بعد بھی ہمیں وہ چیز پہلی صورت میں نہیں مل سکتی، مثال کےطور پر ہرانسان کے پاس ہاتھ ہے، پیر، آنکھ ہے، ناک ہے، کان ہے،زبان ہے،یہ ہم روز استعمال کرتے ہیں اگر اس میں کوئی خرابی پیداہوجائے تودوبارہ یہ چیز پہلی حالت میں ہمیں نہیں مل سکتی،ہاتھ اگرٹوٹ جائے تو ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرنے کےبعد بھی ہمیں یہ پہلے جیسا نہیں مل سکتا،اس لئے اللہ تعالی نےہم کو جونعمتیں عطا کی ہیں اسکی قدر کرنی چاہیے،اور ہمیشہ اپنے خالق و مالک کاشکریہ اداکرناچاہئے،اوران نعمتوں کی حفاظت بھی کرنی چاہیے،قرآن کریم میں ایک جگہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ"اگر تم میری نعمتوں کاشکریہ ادا کروگے تو میں اسکو اور بڑھاؤں گا اور اگر تم نے میری ناشکری کی، میری نعمتوں کاغلط استعمال کیا تو پھر یاد رکھو میراعذاب اورمیری پکڑ بہت سخت ہے"(قرآن) اسلئے بہرحال ان نعمتوں کی شکرگزاری اور اسکی حفاظت ہم سب کی اہم اور بنیادی ذمہ داری ہے،اللہ تعالی نے ہمکو جن نعمتوں سے نواز ہے ان میں ایک اہم چیز"ایمان" بھی ہے،اور یہ ساری چیزوں سے اہم ہے،دنیاوی حالات اور ماحول میں ایسے مواقع بار بار آتے ہیں جب ہمارا امتحان ہوتاہے اور ہم آزمائش میں مبتلاء کردئیے جاتے ہیں،ایسے وقت میں آدمی ڈگمگا جاتاہے اور بلآخر ایمان جیسی قیمتی واہم چیز سےہاتھ دھو بیٹھتا ہے،ایمان ہم سے نکل جاتاہے اور ہم کواسکا احساس بھی نہیں ہوتا، کتنی تکلیف دہ بات ہے جب آدمی سے ایمان ختم ہوجائے اور ہم پھر دنیا کی رنگینیوں میں  مگن رہیں،بھلا بتلائیے جب آدمی کے پاس ایمان نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے تو پھر ایسی زندگی سے کیافائدہ؟ اسلئے ہمیں ہروقت اسکا محاسبہ کرتے رہنا چائیے کہ ہمارے پاس ایمان ہے بھی یا نہیں؟ ہمارا ایمان سلامت ہے یا نہیں؟ یادرکھئے اگر ہم دنیا سے کچھ بھی نہ لیکر گئے لیکن اپنا ایمان محفوظ رکھا، اسکو بچائے رکھااوریہاں سےبچاکرلےگئے تو پھر  ہم  یقیناً آخرت میں کامیاب ہیں،اور اگر ہم خدا نخواستہ اپناایمان نہ بچاسکے، اسکی حفاظت نہ کرسکے،اپنے بیوی بچوں، دوست احباب اور رشتہ  داروں کاایمان صحیح سالم نہ رکھ سکے، انکو ثابت قدم نہ رکھ سکے تو پھر ہم سے زیادہ ناکام و نامراد کوئی نہیں،دنیا کی ساری چیزیں اگر ہمارے پاس ہیں اور ایمان نہیں ہے تویقین کیجئے کہ پھر ہم میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں، اوریہ دنیا کی ساری چیزیں آخرت میں ہمارے کسی کام نہیں آسکتی اس سے کوئی فائدہ ہمکو حاصل نہیں ہوگا،دنیا میں چاہے ہم ان چیزوں سے فائدہ حاصل کرلیں،لیکن آخرت میں اس سے ہمیں بڑا نقصان ہوگا،اسلئے ہمیں اپنے ایمان کاوقتافوقتا جائزہ لیتے رہنا چاہئے،ایمان کس کو کہتے ہیں؟ اور اسکی حقیقت کیاہے؟ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے" ہروہ شخص جس نے کلمہ طیبہ پڑھ رکھاہے اور اسے اللہ کی جانب سے پیدائشی یااختیاری طورپر اسلام و ایمان کی نعمت عطاء ہوئی ہو،اسکی قدر،حفاظت اوراسکا شکر اداکرنا اسکی ذمہ داری ہے،جسکا وہ روز قیامت جواب دہ ہوگا،اوراس سے پوچھا جائے گا کہ ہم نے تمہیں ایمان کی جو نعمت عظمیٰ عطا فرمائی تھی، تم نے اسکی کیاقدردانی کی؟اسکی حفاظت میں تم کتنے کامیاب ہوئے؟اس پر شکراداکرنے کی بھی تمہیں کبھی توفیق ہوئی یا نہیں؟قدم قدم اور موڑ موڑ پر ایمان کے ڈاکوؤں کے نرغے میں گھر کر تم نے متاع ایمان کا کیا سودا کیا؟ زندگی کے ہرشعبے میں شیطانی شکنجوں میں پھنس کر تم نے ایمان کی کیا قیمت چکائی؟زر زن اور زمین کے چکر میں تم نے کتنی مرتبہ اسلام و ایمان کو پس پشت ڈالا؟ نوکری چھوکری کے لالچ میں،بیرون ملک جانے کی آرزو میں اور اپنی ذہنی و جسمانی آزادی وبلوغت  کےلئے تم نے خود کو قادیانی وغیرہ لکھوایا؟ دنیاکے چند روزہ فائدے کے خاطر تم نے اپنی روحانی پونجی کو کس طاق نسیان میں رکھ چھوڑا تھا؟ تمہارے پیغبر ﷺ نے فرمایاتھا کہ"تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے اسے چاہیے کہ اپنی طاقت سے روک دے،اگرایسا نہ کرسکے تو اپنی زبان سے اسکو روکے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو کم ازکم اسکو اپنے دل میں برا سمجھے یہ ایمان کا سب سے کمزور اور ہلکا درجہ ہے"کیا تمہارے اس کمزور درجہ کابھی ایمان پایا جاتاتھا؟ تم نے اپنی زندگی میں ایمان کو کیااہمیت دی تھی؟کیا تم میں اپنے ایمان سے، جسم و جان سے بڑھکر محبت تھی؟اے کاش!کبھی وقت نکال کر بلکہ چھین کر ہم خود سے ان سوالات کا جواب بھی سوچ سکیں اور کچھ اسکی فکر بھی کرسکیں"(اہل ایمان کی ذمہ داریاں)درج بالا اقتباس کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی اپنی ذات سے اس طرح کا سوال کیا اگر نہیں تو ہمیں یہ باربار پڑھنا چاہئے اور اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہئے،کہ آخرہمارے پاس ایمان جیسی بے بہا اور قیمتی شیئ ہے بھی یا نہیں؟اگر یہ نہیں ہے تو یہ بڑی افسوس کی بات ہے،گذشتہ دنوں ہریانہ کی ایک خبر اخباروں میں چھپی کہ"ہریانہ کے ضلع حصار،گاؤں بدھ میرا 40 مسلم خاندان کے تقریباً 250 ارکان مرتد ہوکرہندو بن گئے،نئے مذہب سے انکی وفاداری دیکھئے کہ اب انکے پاس مردوں کو دفن نہیں کیاجاتا،بلکہ اسے شمشان گھاٹ میں جلایاجارہاہے،گذشتہ ماہ 6 مسلم فیملیوں کے 35 ارکان نے جندھ علاقے کے گاؤں میں اسی طرح ہندو مت اختیار کیاتھا،جسکا چرچہ نہیں ہوا،تاکہ گذشتہ روز بھاری تعداد میں مسلمانوں کاہندو بننا بلاشبہ بہت بڑی اور مسلمانوں کےلئے غوروفکر کرنے والی تبدیلی ہے،مرتد ستبیر نے بتایا کہ اسکی ماں پھولی دیوی کی فطری موت ہوئی اور گاؤں والوں نے ابتداء میں طے کیاکہ اسے دفن کیا جائے مگر ہندوؤں کے ساتھ تبادلہ خیال کے بعد اسکی میت کو نذرآتش کردیا گیا،مقامی مسلم ویلفیئر آرگنائزیشن کے ریاستی صدر حرفول خان نے بتایا کہ یہ سب کوٹہ کی حرص کا نتیجہ ہے،ہندوستان میں اکثریتی فرقہ کوسالہا سال سے شکایت رہی ہے کہ غیر مسلم لوگ اسلام کی صف بندی میں داخل ہوتے جارہے ہیں،یہی نہیں بلکہ کئی قبائلی اور دیہی علاقوں میں ہندو عیسائیت بھی قبول کررہے ہیں،تاہم اب  مسلمانوں کے مرتد ہونے کا نیارجحان شروع ہوا ہے،اور اسکی بنیادی وجہ کوٹے کے ذریعہ سماجی فوائد کا حصول ہے"(روزنامہ سیاست 10 مئی)یہ اس اخبار کی پوری خبر ہے،اس سے پہلے بھی چند مہینے قبل آگرہ شہر سے گھر واپسی کی اسی طرح کی خبر موصول ہوئی تھی،جسکو ہندو تنظیم نے زبردستی انجام دیاتھا،اسطرح کے افسوسناک واقعات بڑی منظم پلان کے تحت انجام دی جارہی ہیں،اوراسکا اصل نشانہ وہ علاقے ہیں جو شہر سے دور ہیں،اور وہاں لوگوں کو مذہبی تعلیم سیکھنے سکھانے کاکوئی انتظام نہیں،ایسے جگہوں کوخاص طور پر نشانہ بنایا جاتاہے اورانکے ایمان پر ڈاکہ ڈال دیا جاتاہے،صاحب استطاعت مسلمان، مسلم تنظیمیں اور علماء حضرات کو ایسے جگہوں کی فکرکرنے کی ضرورت ہے،موجودہ حکومت نے سی اے اے کے نام سے نیاقانون پاس کیاہے اگراسکو پوری قوت کے ساتھ روکا اور وا پس نہ کرایا گیا تو ملک میں ارتداد کاسیلاب آجائے گا جسکوسنبھالنا ناممکن ہوگا،ایک طرف تو حکومت اس طرح کا قانون لارہی ہے اور دوسری جانب ہندو تنظیمیں منصوبہ بند طریقے سے اس طرح کے واقعات انجام دے رہی ہیں، جوبڑا افسوس ناک ہے،آج کل بے شمار فتنے جنم لے رہے ہیں اور یہ کہنا مشکل ہے کہ کب کونسا فتنہ آپ کے ایمان پر ڈاکہ ڈال دے اورآپ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں،عیسائی تنظمیں بھی لوگوں کو لالچ وغیرہ دیکر عیسائی بنارہی ہیں،اسکے علاوہ "قادیانیت" اور "شکیلیت" کافتنہ بھی ملک کے مختلف شہروں میں سرابھار رہاہے، ان سب کا مقصد صرف ایک ہی ہے وہ یہ لوگوں کو مرتد بنایا اور اسلام سے کھنیچ لیا جائے،پھر آپ کو پتہ بھی نہ چل سکے کہ کب میں اسلام اورایمان سے خارج ہوگیا؟ ایسے زمانے ہی کےلئے حدیثِ مبارکہ میں پیشن گوئی کی گئی ہے،حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ سرکاردوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح آنے والے(سیاہ)فتنوں سے پہلے نیک عمل کرنے میں حلدی کرو،ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ اس زمانے میں انسان صبح کو مومن ہوگا اورشام کو کافر ہوگا،ذرا سی دنیا کے بدلے اپنے دین کو بیچ ڈالے گا"(مسلم) موجود حالات کودیکھئے تویہ حد یث بالکل صحیح رہنمائی کررہی ہے،اسکی ایک ادنی سی مثال عدالت اورکورٹ میں جھوٹی قسمیں کھاکر گواہی دینا بہت سے لوگوں کا پیشہ بن گیاہے،جوبڑی تشویشناک ہے،ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا،قرآن کی صرف رسم باقی رہ جائےگی،انکی مسجدیں عالیشان،دیدہ زیب،نقش ونگار اورٹائٹل وغیرہ سے آباد ہونگی اورہدایت کے اعتبار سے ویران ہونگی وغیرہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ اس پرمیں دین پرعمل کرنے والا ایسا ہوگا جیسےہاتھ میں  چنگاری پکڑنے والا ہو،
ان احادیث سے تویہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ہم جس زمانے میں زندگی گذار رہے ہیں یہ انتہائی فتنوں کادور ہے،ہرطرف فتنہ ہی فتنہ ہے ایسے میں ہمیں دین پرثابت قدم بھی رہنا اوراپنے،اہل وعیال،دوست احباب اور رشتے داروں کےایمان کی فکراوراسکی حفاظت بھی کرنی ہوگی،آئیے اب یہ سمجھ لیں کہ ایمان کس کو کہتے ہیں؟ اوراسکی حقیقت کیاہے؟قرآن کریم میں ایک جگہ ہےکہ اے ایمان والو!اللہ اور اسکے پیغمبر پر لائے ہوئے ایمان کی حفاظت کرو اوراس کتاب کے ایمان کی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر پر نازل فرمائی، اوراس کتاب کے ایمان کی جسے اس سے پہلے اللہ نے یکبارگی نازل کی"(سورہ نساء )
ایمان کی حقیقت کیاہے؟اسکو جاننے کےلئے یہ اس اقتباس کو پڑھئے کہ"ایمان ایک نور ہے جو حضرت محمد ﷺ کی تصدیق سے دل میں آجاتاہے،اور جب یہ نور دل میں آتاہے تو کفروعناد اور ظلم و رسوم جاہلیت کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں،اورآدمی ان تمام چیزوں کو جنکی رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے خبردی ہے نور بصیرت سے قطعی سچی سمجھتا ہے"(کفریہ الفاظ اورانکے احکامات ) محدثین کرام کے نزدیک ایمان کے تین اجزاء ہیں،ایک ہے تصدیق بالقلب یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اوراسکے رسول ﷺ کی رسالت اور دین اسلام کی حقانیت میں دل سے یقین رکھنا،اوراس یقین واعتماد پر دل ودماغ کامطمئن رہنا،دوسرے اقرار باللسان یعنی اس دلی یقین واعتقاد کازبان سے اظہار واقرار کرنا،اور تیسرے اعمال بالجوارح یعنی دین شریعت کے احکام وہدایات کی جسمانی بجاآوری کے ذریعے دلی یقین واعتماد کاعملی مظاہرہ کرنا،یہ تین چیزیں محدثین کے نزدیک ایمانی اجزاء ہیں اور انہی تینوں کا مجموعہ ایمان کہلاتاہے۔خلاصہ یہ ہے کہ ایمان بہت قیمتی چیز ہے اگر ہمارا سب کچھ لٹ گیااورہم نے اپنے ایمان کوبچالیا اسکی حفاظت کرلی تویقین جانئے کہ ہمارے پاس سب محفوظ ہے،لیکن اگرہم نے سب کچھ پالیا اوراپنے کونہ بچاسکے تویہ ہمارے لئے بدنصیبی کی بات ہے ہم کیسے حشرکے میدان میں اللہ اسکے محبوب ﷺ کا سامناکریں گےاور کیا جواب دیں گے؟ ذراآپ بھی سوچئے ابھی وقت ہے شایدیہ وقت ہمیں کل دستیاب نہ ہو،ہماری آنکھیں بندہوجائیں تو،امیرمینائی نےاپنے ایک شعرمیں کچھ اسی طرح کاپیغام ہمیں دینےکی کوکوشش کی ہے کہ 
        کچھ رہے نہ رہے پر تمنا ہے امیر 
    آخری وقت سلامت میرا ایمان رہے۔

نوٹ۔۔۔۔۔(مضمون نگار،کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com