Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 13, 2020

امت ‏مسلمہ ‏کی ‏دو ‏حیثیت ‏ہے ‏۔۔ایک ‏عالمی ‏اور ‏دوسری ‏علاقاٸی۔

از/ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی/ صداٸے وقت۔
==============================
امت مسلمہ کی اساس قران مجید اور سنت  ہے ۔بحیثیت مسلمان ہمارا دین اسلام ہے اور ہم اس کے ایک ایک حکم اور ہدایت کے پابند ہیں ۔ اسلام چند ظاہری رسم ورواج یا چند عبادت کے طریقوں کا نام نہیں ہے ۔جیسے ختنہ عقیقہ نکاح کے نام پر بے شمار خرافات ,نماز  روزہ  حج   کے نام پر مقامی رسوم ,محرم کے تعزیے  شب بارات (برأت) ,قربانی  ,یوم میلاد النبی , صوفیہ کی قبریں, عرس اور قوالیاں وغیرہ ۔ جی ہندوستان میں بیشتر غیر مسلم انہیں کے حوالے سے مسلمانوں کو جانتے ہیں ۔اکثر غیر مسلم احباب شب برأت اور یوم علیؓ ؓکے موقع پر مبارک باد دیتے ہیں ۔ اس میں ان کی کیا غلطی ہے ؟۔ ہم نے ایک مدت سے انہیں کاموں کے ذریعہ اپنا یا اسلام کا تعارف کرایا ہے ۔ اگر آپ کہیں کہ عرس , قبروں پر چادر چڑھانا اور قوالیوں سے دین اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے تو غیر مسلم حیرت سے منہ دیکھتا ہے کہ یہ کس طرح کے نیے مسلمان آگیے اور دوسری طرف مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ ناراض ہوتا ہے کہ اپ کون ہوتے ہیں جوان کاموں کو اسلام سے خارج کررہے ہیں ۔اسلام کے تعارف کے سلسلےمیں یہ درگت ہوئی ہے کہ  ہم نے اپنی عملی زندگی میں قسم قسم کی ٹوپیوں ہی کو  اسلام کی پہچان بنادیا ہے اور اس بنیاد پر مقدمہ تک کی نوبت آگئی مگر ٹوپی سے سمجھوتہ نہیں کرسکے ۔  کیرلہ کی ایک عدالت میں اس پر مقدمہ چل چکا ہے کہ تشہد میں نماز ی اپنی انگلی کھڑی رکھے گا یا حرکت دیتا رہے گا ۔ غیر مسلموں کی بہت بڑی تعداد یہ جانتی ہے کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا تیوہار محرم کے تعزیے بنانا , خریدنا ,سجانا اور پھر اسے دفن کرنا ہے ۔چنانچہ ہندوستان میں نامعلوم کتنے فساد تعزیہ کے نام منسوب ہیں ۔ اور اگر آپ یہ کہہ دیں کہ تعزیہ داری کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے تو معلوم نہیں کون اور کتنے لوگ آمادہ قتل و غارت گری ہوجائیں گے ۔
ہم نے اس طور پر اسلام اور مسلمانوں کا تعارف کم ہی کرایا ہے کہ اسلامی عقاید کی بنیاد قران مجید و سنت رسول ہے اور اس سے ہم کبھی دستبردار نہیں ہو سکتے ۔ اللہ ,تمام رسولوں اور اخری رسول ,فرشتوں, آسمانی کتابوں , یوم آخرت اور غیب پر ایمان لانا ضروری ہے اور جو ان بنیادوں کو نہیں مانتے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ اسی طرح کلمہ شہادت کی ادائیگی, نمازوں کی پابندی , روزوں کا اہتمام ,زکوة  اور فریضہ حج کی ادائیگی , اللہ کے قانون کی سربلندی کے لیے جہاد کرنا یہ ہمارے دین کا حصہ ہے اور اس کے بغیر ہم رہ نہیں سکتے ۔ اسی طرح دین اسلام ایک مکمل نظام ہے ۔ سیاسی , سماجی , خاندانی ,اخلاقی ,معاشی , تعلیمی , ہر ایک کی مکمل بنیادیں ہیں اور اس کے اصول و ضوابط ہیں اور ہم اس پر عمل کرنے کے لیے شرعی پابند ہیں  ۔ ہمارے دین کا ایک عدالتی اور فوجداری سسٹم ہے ۔ انہی بنیادوں اور عقائد اور قران وسنت کی اساس پر پوری دنیا کے مسلمان ایک اور متحد ہیں ۔ ہم ایک امت ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد اور مسائل و معاملات میں باہم متفق ہیں ۔ امت مسلمہ کو علاقوں اور خطوں کی بنا پر ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ 
اب ہماری دوسری حیثیت کسی ملک کے شہری ہونے کی ہے ۔ اس کا تعلق نظم و انتظام سے ہے ۔  شناخت اور Identity سے ہے ۔بھارت ہو کہ جاپان , امریکہ ہو کہ لندن اور آسٹریلیا اور چین ہو کہ سوازی لینڈ ۔بحیثیت شہری وہاں کے انتظامی قانون اور ضابطوں کے ہم پابند ہیں مگر جہاں عقیدہ اور شریعت کا معاملہ ہو گا تو وہاں ہم شریعت اسلامی کے پابند ہو ں گے ۔ 
ایک طویل عرصہ سے سب کچھ گڈ مڈ ہوگیا ہے ۔ خود ہم نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے اور غیر اسلام کیا ہے ۔ بڑی حیرت اور افسوس ہوتا ہے , جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم مسلمان علماء و دانشوروں کی دلچسپی کن کاموں سے ہے ۔ ایک طرف ہمارا دشمن باطل طاقتیں ہمارا نام و نشان مٹادینے کی انتہائی حد تک کوششوں میں آگے بڑھتے جارہے ہیں ۔ اس وقت مسلمانان ہند تاریخ کے سنگین تر موڑ پر پہنچ چکے ہیں ۔ بحیثیت مسلم موت وزندگی کی نازک گھڑی آن پہنچی ہے اور دوسری جانب ہماری بحث و مذاکرہ کے موضوعات اور ان کے انداز و اسلوب کیا ہیں ؟ غور کرنے کا مقام ہے ۔ اپنے اپ کو تبدیل کرنے کا مقام ہے ۔ اٹھیے اور اپنے منصب و مقام کو پہچانیے ۔ یہ بھائی چارہ اور سدبھاؤ اور ایکتا میں انیکتا جیسے مکر وفریب کے جال سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں جالوں سے فکر وعمل کا ارتداد  شروع ہوتا ہے ۔  سیکولر تعلیم نے ہماری نسلوں سے ہماری تہذیب اور پہچان کو ہماری زبان کو چھین لیا ہے ۔ لہذا  اب صرف اور صرف حق وباطل کی بنیاد  پر اپنی پوزیشن کو واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ نفاق کی روش اختیار کرتے کرتے ہماری غیرت وحمیت کا جنازہ نکل چکا ہوگا ۔ اس پر علماء و دانشوروں کو بڑی سنجیدگی و گہرائی سے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے ۔
ڈاکٹر سکندرعلی اصلاحی