Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, May 8, 2020

نواقل ‏پڑھنا ‏بہتر ‏ہے ‏۔۔۔۔لیکن ‏نہ ‏پڑھنے ‏پر ‏گناہ ‏نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ‏محمد رضی ‏الاسلام ‏ندوی ‏



از/ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی /صداٸے وقت۔
==============================

       مفتیانِ کرام آج کل پورا زور یہ ثابت کرنے میں لگا رہے ہیں کہ تراویح سنّتِ موکّدہ ہے _ وہ اس کے بھی دلائل فراہم کررہے ہیں کہ تراویح کی اصلاً 20 رکعتیں ہیں ، اس پر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں تمام صحابۂ کرام کا اجماع ہوگیا تھا ، اس لیے نہ اس کی 8 رکعتیں ماننا درست ہے نہ 36 رکعتیں _ ان کے جوش کا عالم یہ ہے کہ بعض فتاویٰ میں یہ عبارت نظر سے گزری کہ " جو 20 رکعت نہیں پڑھے گا وہ ترکِ سنّت کا گناہ گار ہوگا _" حیرت ہے کہ موقّر مفتیانِ کرام بغیر تحقیق کے ایسی غلط بات کیوں کر لکھ جاتے ہیں؟
        اعمال کی بنیادی تقسیم دو ہے : فرض اور نفل _ سنّتِ مؤکّدہ ، سنّت ، مستحب ، سب نفل کے تحت آتے ہیں _ نماز میں بھی یہی تقسیم ہے _ فرض نمازوں کے علاوہ سب نوافل ہیں ، چاہے انہیں سنّتِ مؤکّدہ قرار دیا جائے ، یا سنّت ، یا نفل  _ نوافل پڑھنے کی فضیلت بیان کی جائے گی ، اس کی ترغیب و تشویق دی جائے گی ، لیکن یہ ہرگز نہیں کہا جائے گا کہ ان کے نہ پڑھنے پر بندہ گناہ گار ہوگا _

        احادیث میں نوافل کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے _ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :  " میرا بندہ نوافل کے ذریعے برابر میرا تقرّب حاصل کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ میں اس سے محبّت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے دیتا ہوں اور اگر مجھ سے کسی چیز کی پناہ مانگے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں _ " (بخاری :6502)

       ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :" روزِ قیامت بندے سے سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا _ اگر نماز کا معاملہ ٹھیک رہا تو امید ہے کہ اس کے دیگر معاملات بھی ٹھیک رہیں گے اور وہ کام یاب و بامراد ہوگا اور اگر نماز کا معاملہ خراب رہا تو اندیشہ ہے کہ اس کے دیگر معاملات بھی خراب رہیں گے اور وہ ناکام و نامراد ہوگا _ اگر فرض میں کچھ کمی رہ جائے گی تو اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا : دیکھو ، میرے بندے کے اعمال میں کچھ نوافل ہیں _ اگر ہوں گے تو ان کے ذریعے فرض کی کمی کو پورا کردیا جائے گا _" ( ابوداؤد :864 ،ترمذی :413، نسائی :465 ،ابن ماجہ :1425)

          ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نوافل سے :
     *  اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے _
     * فرائض میں ہونے والی کمی کی تلافی ہوتی ہے _
    * اگر نوافل ادا کرنے میں سستی ہوگی تو اندیشہ ہے کہ فرائض کی ادائیگی میں بھی سستی ہونے لگے گی _

        اس لیے بندۂ مومن سے مطلوب یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کرے ، سنّتوں کی پابندی کرے اور سننِ مؤکّدہ کا خاص طور سے اہتمام کرے _

      سنن و نوافل کی اس اہمیت کے پیش نظر ان کی ترغیب دینا اور ان پر ابھارنا تو درست ہے ، لیکن انھیں نہ ادا کرنے والے کو ترکِ سنّت کا گناہ گار قرار دینا درست نہیں _