Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, May 14, 2020

ڈاکٹر ‏ظفر ‏الاسلام ‏خان۔۔۔۔۔دہلی ‏ہاٸی ‏کورٹ ‏سے ‏راحت ‏کی ‏فیصلے۔۔۔اقلیتی ‏کمیشن ‏کے ‏چیٸرمین ‏کے ‏عہدہ ‏سے ‏ہٹانے ‏کی ‏عرضی ‏بھی ‏خارج۔


از /سید منصورآغا/صداٸے وقت /14 مٸی 2020.
===============================
پہلی اچھی خبرتو یہ ہے کہ  12مئی کو جسٹس منوج کماراوہری    پر مشتمل دہلی ہائی کورٹ کی ایک رکنی بنچ نے ڈاکٹرظفرالاسلام خاں کی ضمانت کی عرضی ‏پر حکم جاری کیا ہے کہ کیس کی اگلی تاریخ (22جون)  تک ان کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیں ہوگی۔ عدالت سے ملنے والی یہ راحت ‏ضمانت سے بڑھ کر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت نے یہ ضرورت نہیں سمجھی کہ محترم ڈاکٹرصاحب ضمانت پیش کریں۔ شکرالحمداللہ۔
ایک دوسرے کیس میں جسٹس راجیوسہائے اینڈلا اور جسٹس سنگیتا ڈھینگرہ سہگل پر مشتمل دورکنی بنچ نے ڈاکٹرخان کو دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین ‏کے منصب سے ہٹانے کی عرضی کو خارج کردیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ایل جی نے دہلی سرکار کو خط لکھا ہے اور ڈاکٹرخان کو وجہ بتاؤ نوٹس بھیجا ‏ہے۔عدالت نے کہا کہ دہلی سرکار مناسب مدت  کے اندرمعاملہ کوطے کرلے۔ یہ دعوی بنک کے ایک ریٹائرملازم سبھاش چندرا نے داخل کیا ‏تھا۔ ‏
دہلی ہائی کورٹ کے یہ دونوں فیصلے صاف اشارہ کررہے ہیں کہ ڈاکٹرصاحب کے خلاف جو ایف آئی آر درج ہوئی ہے، اس میں کوئی جان نہیں۔ ‏وسیع پس منظر میں دیکھئے تو ان فیصلوں سے ڈاکٹرصاحب کو ہی نہیں بلکہ ان تمام ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اوردیگرافراد کو راحت ملی ہے جو ملک میں ‏قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں اور نفرت کی سیاست سے فکرمند ہیں۔دنیا دیکھ رہی ہے قانونی ہتھ کنڈے استعمال کرکے سچائی کو دبانے کی کوشش ہوتی ‏ہے۔ جولوگ نفرت کے بیچ بورہے ہیں اور اس کی فصل کاٹ رہے ہیں ان کو اظہارخیال کی آزادی کے نام پر سیاسی، انتظامی اورعدالتی تحفظ مل ‏رہا ہے، جبکہ دبے کچلے طبقوں کیلئے راحت اور فرقہ ورانہ اتحاد کی آواز اٹھانے والوں کو ستایا جاتا ہے۔ ‏
اپنے سابق مضمون میں ہمارا تجزیہ یہی تھا کہ ڈاکٹرصاحب کے خلاف ایف آئی آر ایک مخصوص اقلیت دشمن ذہنیت کی طرف سے ان کی آواز کو ‏دبانے کوشش ہے۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین کی حیثیت سے وہ بلاتفریق مذہب زیادتی کا شکار ہونے والے ہر اقلیت کے ا فرادکیلئے آواز ‏اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس بیان میں جس کو ایف آئی آر کی بنیاد بنایا گیا ہے، مسلم  اقلیت کے خلاف نفرت اور دشمنی پھیلانے والوں کو ‏خبردارکیا ہے کہ وہ جوفساد پھیلارہے ہیں اس کا اثرملک سے باہربھی پڑرہا ہے۔ ان کی اسلام اورمسلم مخالف گندی پوسٹوں سے مسلم ممالک سے ‏ہمارے سفارتی رشتے متاثرہورہے ہیں اور ان ممالک میں روزگارکمانے والے لاکھوں افراد کیلئے مشکلات پیداہورہی ہیں جوابتک وہاں عزت کی ‏زندگی گزاررہے ہیں۔ چنانچہ کئی بڑے کاروباری اورچھوٹے ورکراپنے روزگارکھوچکے ہیں۔ ابھی جہازوں میں بھربھرکر وہاں سے جن لوگوں کو واپس لایا ‏جارہا ہے، اندیشہ ہے کہ ان میں جو فرقہ ورانہ منافرت کو ہوادینے میں شامل رہے، واپس نہیں جاسکیں گے اورآئندہ بھی نئے امیدواروں کی اچھی ‏طرح چھان بین ہواکرے گی۔ اس سے نقصان ہمارے ملک اور ہم وطنوں کا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے اس جذبہ خیرخواہی پر نادانوں نے ’دیش سے غداری‘ کا الزام لگایا۔ ہندتواکی نئی کلچر میں رنگے ہوئے یہ افراد جو جھوٹ اورگالی ‏کے سواکچھ جانتے ہی نہیں، عقل سے کام نہیں لیتے۔  ز را سا کسی نے ٹوکا اوراس کو’غدار‘ بتادیا، دیش سے نکل جانیکا مطالبہ کردیا اورپڑگئے ‏پیچھے۔تحمل اورسب کو اپنے دامن میں جگہ دینے کی روایت کو ملیا میٹ کیاجارہاہے، حالانکہ یہی وہ خوبیاں تھیں جن کو سوامی وویکانند نے امریکا میں ‏بیان کیا تو تاریخ میں درج ہوگئے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے محترم جج صاحبان نے اس ماحول میں جو رویہ اختیارکیا ہے اس ‏سے سچائی کی  مدد ہوئی اورشرپرپانی پڑا ہے۔ ‏
ہمیں ان حقائق کوبڑے دل اورکھلے دماغ سے سمجھنا ہوگا۔ یاد رکھئے ہرمعاملہ میں فرقہ ورانہ انداز یا محض گمان کی بنیاد پر رائے کا اظہار نقصان دہ ‏ہوتاہے۔ اگراکثریت کی فرقہ پرستی وطن کیلئے مضر ہے تو اقلیت کو بھی محتاط رہنا ہوگا۔ کلمہ گوکی حیثیت سے ہمارا منصب اورمقام یہ نہیں کہ اپنے ‏حق اورحصہ کی مانگ اوردوسروں سے بدگمانی کا اظہارکرتے رہیں۔ سیرت رسول صلعم کا پیغام ہمارے لئے یہ ہے کہ ہم ہر انسان کے خیرخواہ ‏بنیں۔سچی خیرخواہی سے دل بدلتے ہیں۔ اپنے اچھے سلوک سے دیگر اقوام کے دبے کچلوں کے دلوں میں جگہ بنائیں۔ آپ نے حضرت بلال ؓ کا ‏واقعہ سنا ہوگا، لب لباب یہ کہ کسی ظالم کے غلام تھے۔ سردی کی رات تھی، شدید بخار تھا مگر چکی پیس رہے تھے۔ اتفاق سے حضوراکرم صلعم ‏ادھرسے گزرے۔ پتہ چلا کہ مالک ظالم ہے اگرآٹا پوری مقدار میں نہ پسا توظلم ڈھائے گا۔ حضورؐنے اس سیاہ فام اجنبی غلام کواٹھادیااورخو د چکی لے ‏کربیٹھ گئے۔ بالاخر اس جذبہ خیر نے جناب بلالؓ کو حضورصلعم کا گرویدہ بنادیا۔